موجودہ امریکا سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں

دوسری قسط:
”2000ء میں جنوبی بیپٹسٹ کنونشن کے لیڈروں نے اپنے اصولوں میں سے اس اصول کو نکال دیا کہ ”ریاست مذہب کی کسی بھی صورت (form) کی مدد کے لیے ٹیکس عائد کرنے کا حق نہیں رکھتی”۔ اس کے بعد انہوں نے پرائیویٹ اسکولوں کے لیے واؤچر بنائے اور پبلک اسکولوں میں عبادت کو لازمی قرار دینے کے لیے آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا اور چرچ اور ریاست کی علیحدگی کو کھلم کھلا چیلنج کرنے لگے۔” (ص 68)

”جولائی 2005ء میں سپریم کورٹ کی جسٹس سانڈراڈے اوکونر نے اپنی ریٹائرمنٹ کے اعلان کے فوری بعد کہا تھا میں نے اپنی ساری زندگی میں کانگریس کے ارکان اور عدلیہ کے تعلقات کو اتنا داغدار کبھی نہیں دیکھا جتنا کہ اب ہیں… اور میں یہ دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوں۔ موجودہ فضا ایسی ہے کہ میں وفاقی عدلیہ کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں۔” (ص 70)

”2006ء کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران صدارت کے دونوں امیدواروں نے ہم جنس پرستوں کی شادی کی مخالفت کی تھی۔ تاہم قانونی طور پر تسلیم شدہ یونینوں کے ذریعے مرد اور عورت ہم جنس پرست جوڑوں کو مساویانہ شہری حقوق دینے کی منظوری دی تھی۔” (ص 74)

”ہم سب خاندانی اقدار اور شادی کی روایت کے استحکام کو انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کالج پہنچنے سے پہلے تک میں کسی طلاق یافتہ شخص سے واقف نہیں تھا۔ تاہم اب طلاق خطرناک حد تک عام ہو چکی ہے۔ تمام امریکی بالغوں میں سے 25فیصد کو کم از کم ایک مرتبہ طلاق ہو چکی ہے۔ طلاق کی تعداد میں کمی بیشی مذہبی وابستگی اور عمر کی مناسبت سے مختلف ہے۔ بڑے عیسائی گروپوں میں سے بیپٹسٹ سب سے اوپر ہیں 29فیصد، جبکہ کیتھولک اور لوتھرن طلاق یافتگان 21فیصد ہیں۔ ایشیائیوں کے استثناء کے ساتھ صرف 9فیصد، پروٹیسٹنٹوں کے سینئر پیسٹر سب سے کم طلاق یافتہ گروپ تھا 15فیصد۔ بے بی بومرز 34فیصد کو پہنچ چکے ہیں۔ 53سال سے 72سال کی عمر کے درمیان کی عمر والے افراد 37فیصد، جبکہ بوڑھے افراد میں صرف 18فیصد طلاق یافتہ ہیں۔ شادی کے تقدس کو لاحق اس خطرے کی وجوہ بہت سی ہیں لیکن بعض لوگ ہم جنس پرستی کو شادیوں کی ناکامی میں بہت زیادہ اضافے کا ایک اہم سبب تصور کرتے ہیں۔” (ص 74)

”نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کینیڈا اور یورپ کے بچے بھی جنسی اعتبار سے امریکی بچوں ہی کی طرح فعال ہیں،تاہم مناسب سیکس ایجوکیشن سے محروم امریکی لڑکیاں فرانسیسی لڑکیوں کی نسبت پانچ گنا زیادہ تعداد میں ایک بچے کی ماں ہوتی ہیں، سات گنا زیادہ امریکی لڑکیاں ایک مرتبہ اسقاط حمل کروا چکی ہوتی ہیں اور نیدر لینڈز کی لڑکیوں کے مقابلے میں 77گنا زیادہ امریکی لڑکیاں سوزاک کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ٹین ایجرز کے مقابلے میں 5گنا زیادہ امریکی ٹین ایجر ایڈز کا شکار ہوتے ہیں۔ (ص 80)

”اگرچہ امریکا کی خارجہ پالیسی پر بہت سے دوسرے پیچیدہ سیاسی عناصر نے منفی اثر ڈالا ہے، تاہم بنیاد پرستوں نے جذباتی معاملات پر شعلہ بیانی کر کے اور مخالفوں سے مذاکرات سے گریز کر کے امریکی خارجہ پالیسی کی صورت بگاڑ دی ہے۔ ایک اہم مثال یہ ہے کہ چند امریکی سیاسی لیڈروں نے فیڈل کاسترو کو ایک ولن کے طور پر قبول کر رکھا ہے اور انہوں نے کیوبا جیسے چھوٹے سے، عسکری اعتبار سے بانجھ ملک کو ہمارے ملک کی سلامتی اور ثقافت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بنا دیا ہے۔” (ص 103)

”مذہب اور حکومت کا ایک انتہائی عجیب امتزاج، امریکا کی مشرق وسطی میں پالیسی پر کچھ عیسائی بنیاد پرستوں کا بھرپور اثر ہے۔ امریکا میں تقریباً ہر شخص بارہ کتابوں پر مشتمل سیریز سے واقف ہے جس کے مصنف ٹم لاہے اور جیری بی جینکنس ہیں۔ ان کتابوں نے فروخت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ انہوں نے یہ کتابیں بائبل کی احتیاط سے منتخب کردہ عبارتوں خصوصاً ”بک آف ریویلیشن” سے لی گئی عبارتوں کی اساس پر لکھی ہیں اور ان میں دنیا کے ختم ہونے کی منظر کشی کی گئی ہے۔ جب مسیح واپس آئے گا تو سچے ایمان والوں کو آسمان پر اٹھا لیا جائے گا، جہاں وہ خداوند کے ساتھ نیچے رہ جانے والے بیشتر انسانوں کی اذیتوں کا نظارہ کریں گے۔ یہ واقعہ لمحاتی ہو گا اور اس کا وقت پہلے نہیں بتایا جا سکتا۔ میرے لاکھوں ساتھی بیپٹسٹ اور دوسرے لوگ ایسے ہیں جو اس نظریے پر لفظًا یقین رکھتے ہیں اور خود کو چند منتخب لوگوں میں شامل سمجھتے ہیں اور ”دہشت و اذیت کے دور” میں نجات کے لیے منتخب نہ کیے جانے والے اپنے افراد خانہ، دوستوں اور ہمسایوں کو چھوڑنے اور ان کی مذمت پر تیار ہیں۔

امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ایسے نظریات کا سمویا جانا تشویش کا سبب ہے۔ ان ایمان والوں کو یقین ہے کہ اس (Rapture) کی جلد آمد ان کی شخصی ذمہ داری ہے تاکہ بائبل کی پیشگوئی پوری ہو۔ ان کے ایجنڈے میں مشرق وسطی میں اسلام کے خلاف جنگ کرنا اور یہودیوں کا ساری ارض مقدس کو چھین لینا شامل ہے۔ ساتھ ہی سارے عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اس کے بعد کافر (اینٹی کرائسٹ ) اس علاقے کو فتح کر لیں گے اور مسیح فتح پائے گا۔ Raptureکے زمانے میں سارے یہودی یا تو عیسائیت قبول کر لیں گے یا انہیں جلا دیا جائے گا۔ (جاری ہے)