تحریک انصاف اور ان کے حامیوں کا دلچسپ معاملہ ہے۔ ان کے حق میں کوئی پوسٹ یا تحریر لکھی جائے تو وہ اسے فار گرانٹڈ لیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ چونکہ وہ حق پر ہیں، سچائی کے راستے پر گامزن ہیں، اس لیے ان کی حمایت کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ بعض تو حمایتی پوسٹ کرنے والے کے بارے میں صاف کہہ دیتے ہیں کہ اس نے ویوز اور ڈالروں کی لالچ میں ایسا کیا ہوگا، ورنہ پہلے تو یہ مخالف تھا۔چلیں ٹھیک ہو گیا، حامیوں کے ساتھ تو آپ نے سیٹل کر لیا۔ اصل مسئلہ تنقید کرنے والوں کے ساتھ بنتا ہے۔ ایسے ہر ناقد پر یہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ الزامات، تنقید، طنز، طعنے، دشنام اور گاہے ننگی گالی دینے سے بھی باز نہیں رہتے۔ ایک دلچسپ بات یہ کہی جاتی ہے کہ آپ نے تو اپنی ریچ بڑھانے کے لیے ایسا کیا ہے۔ بھئی حد ہی ہے، تنقید کرنے سے کیسے ریچ بڑھ جائے گی؟
بات یہ ہے تحریک انصاف ملک کی بہت اہم جماعت ہے، اس کا ووٹ بینک اور سپورٹ بڑی ہے اور متنوع بھی۔ اس لیے اسے ڈسکس کیا جاتا ہے۔ اچھے پہلوؤں کی تحسین اور غلطیوں یا خامیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ قابل فہم بات ہے۔آپ کو تنقید پسند نہیں تو اس کا شائستگی سے جواب دیں، اپنا موقف یا تصویر کا دوسرا رخ سامنے لے آئیں یا پھر اس تنقید کو برداشت کرتے ہوئے نظرانداز کر دیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور ان کے حامیوں کے لیے دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ یہ سمجھ لیں کہ سیاسی جماعت ہیں، سیاست کر رہے ہیں، پاور پالیٹیکس کا حصہ ہیں۔ یہ حق و باطل کی جنگ نہیں۔ آپ لوگ اپنی تقویت کے لیے اولین اسلامی تاریخ سے استعارے ضرور ڈھونڈیں مگر دوسروں کو ان کا پابند نہ بنائیں۔ آپ اخلاقی برتری کے اس سنگھاسن پر براجمان نہیں کہ آپ کی حمایت کرنا ہر ایک پر فرض ہو جائے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے کہ آپ اپوزیشن کی سیاست کر رہے ہیں، مشکل، کٹھن سیاست۔ پاکستان میں اپوزیشن معتوب ہوتی ہے، اس بار آپ ہیں۔ سچ تو مگر یہ بھی ہے کہ کل تحریک انصاف حکومت میں تھی تو تب کی اپوزیشن معتوب تھی، سختیوں کا شکار تھی۔ البتہ شدت آج والی نہیں تھی۔ اگر تحریک انصاف ان مسائل اور حالات کو سیاست سمجھ کر قبول اور ہینڈل کرے گی تو ان کی تلخی اور کڑواہٹ میں کمی آئے گی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کی ڈیلنگ بھی بہتر ہو جائے گی۔
مذہبی حلقوں میں ایک فقرہ کہا جاتا ہے کہ ایسی بات بولو کہ توڑ نہ ہو، ایسی بات کہو کہ جوڑ ہو جائے یعنی تعلق ٹوٹنے کے بجائے مضبوط ہوں۔ یہ بات تحریک انصاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کئی برسوں سے یہ سولو پالیٹکس کر رہی ہے۔ حکومت میں آئے تو مجبوراً مخلوط حکومت بنانا پڑی مگر اپنے اتحادیوں کو پارٹنر بنانے کی صلاحیت سے تحریک انصاف کے قائد محروم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے کسی دوسری سیاسی جماعت کو ساتھ ملانے یا کوئی اتحاد بنانے کی ذرا برابر ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ شاید سمجھتے تھے کہ آسانی سے میدان مار لیں گے اور اقتدار میں تن تنہا آجائیں گے۔ ایسا مگرنہیں ہوا۔ سیاست میں اتحادی بنانے پڑتے ہیں، مخالفوں کو کمزور اور اکیلا کرنا پڑتا ہے، خود تنہا نہیں ہو جاتے۔ ممکن ہے یہ بات اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو اب سمجھ آ رہی ہوگی۔
تحریک انصاف کو ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ غیر مشروط حمایت کم ہی میسر آتی ہے، عام طور سے کچھ چیزیں اختلافی ہوتی ہیں اور بعض پر اتفاق رائے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ مشترک نکات پر بات کریں۔ جو جتنی حمایت کرتا ہے، اسے قبول کریں۔یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر ایک آپ کا مستقل یا باقاعدہ ساتھی نہیں بن سکتا۔ صحافیوں، تجزیہ کاروں، لکھاریوں کی اپنی سوچ، فکر اور رائے ہوتی ہے۔ ممکن ہے وہ بعض امور پر آپ کے ناقد ہوں، مگر چند ایک اہم چیزوں میں وہ ہم خیال ہوں۔ بعض لوگ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سیاست کے مخالف ہوں گے، وہ ان کی مخالفت کے معاملے میں آپ کو سپورٹ کریں گے، اس سے زیادہ نہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے، آپ اپنی ہارڈ کور کو مضبوط بنائیں اور باقی جہاں سے جتنی سپورٹ ملتی ہے اسے لیں۔ انہیں طنز، طعنوں کا نشانہ نہ بنائیں۔
کسی بھی پارٹی میں کچھ لوگ زیادہ قربانی دینے والے، سخت جان اور عزیمت والے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی مشکل راہ اپناتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی قدر کرنی چاہیے۔ ہر پارٹی میں کچھ لوگ مگر ایسے بھی ہوتے ہیں جو نظریاتی، وفادار اور اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ بس ان میں عزیمت کا عنصر کم ہوتا ہے اور وہ رخصت کے اصول پر چلتے ہیں یعنی جہاں جہاں رعایت مل سکتی ہے لے لی جائے۔ ایسے لوگوں کو رد نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ بہرحال انہوں نے لالچ، ترغیب اور زور و جبر کے باوجود پارٹی نہیں چھوڑی۔ کسی نہ کسی سطح پر پارٹی سے جڑے رہے، وفاداری نبھائی، البتہ وہ پولیس کے چھتر نہیں کھانا چاہتے، جیلوں میں سڑنا نہیں چاہتے اور گزارا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے نوٹ کیا ہے کہ تحریک انصاف میں چونکہ ہارڈ لائنرز غالب آ چکے ہیں، خاص کر اوورسیز ولاگرز تو وہ انتہائی عزیمت والے لوگوں کے سوا کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ غلط اپروچ ہے۔ پارٹیاں یوں نہیں بنتیں، یوں نہیں چلائی جاتیں۔ ٹوئٹر پر فیک آئی ڈیز والے اور دریدہ دہن ایکٹوسٹس اور بیرون ملک بیٹھے ولاگرز کے رحم وکرم پر اپنی پارٹی کے نرم خو، معتدل رہنمائوں کو چھوڑ دینا زیادتی ہوگی۔
تحریک انصاف کا ایک اور مسئلہ اس میں پائے جانے والے تضادات ہیں۔ لگتا ہے جیسے پارٹی کی چین آف کمانڈ ٹوٹ چکی ہے۔ چونکہ قائد جیل میں ہیں، قائم مقام بااختیار قائد کوئی نہیں۔ چیئرمین ایک رسمی عہدہ ہی ہے، اس لیے جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کیے جا رہا ہے۔ ایک ایشو پر کئی متضاد بیانات سننے کو ملتے ہیں۔
اس سب کچھ سے منفی اور بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف کو ایک بات طے کر لینی چاہیے کہ انہوں نے مذاکرات کی راہ اپنانی ہے یا صرف احتجاجی سیاست کے ذریعے، عوامی قوت کے بل پر اپنی باتیں منوانی ہیں۔ یہ دونوں کام بیک وقت نہیں ہو سکتے۔ ایک دن بیان آتا ہے کہ مذاکرات کے لیے ہم تیار ہیں، دوسرے روز ایسا شعلے برساتا علیمہ خان کی وساطت سے بیان آتا ہے کہ امن کی شمع بجھ جاتی ہے، صلح کے سفید جھنڈے ہی کو آگ لگ جاتی ہے۔ حضور والا ایسا نہیں ہوتا۔ آپ اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔
ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ جس طرح عمران خان کہہ رہے ہیں ویسے ہی ہوگا اور تحریک انصاف ملک بھر میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی۔ مگر کیسے؟ کسی نے سوچا ہے اس بارے میں؟
جون کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، آگ برساتا مہینہ جب پنجاب اور کے پی میں ٹمپریچر 45 تک چلا جاتا ہے، سڑک پر پانچ منٹ پیدل نہیں چلا جا سکتا۔ اس موسم میں کون احتجاجی تحریک چلاتا ہے۔ پھر اگر تحریک چلانی ہے تو پارٹی کے بغیر کہاں چل سکے گی؟ کارکنوں کو کون باہر نکالے گا، نچلی سطح پر یہ کام کون کرے گا۔ بغیر کسی پارٹی تنظیم کے تو تحریک نہیں چل سکتی۔ تحریک انصاف کو یکسو ہونا پڑے گا کہ سیاسی عمل کے ذریعے، مذاکرات کے ذریعے معاملات سلجھانے ہیں یا پھر لمبی، طویل جدوجہد کرنی ہے اور پارٹی کو مضبوط بنا کر لمبی جنگ لڑ کے، احتجاجی تحریک چلا کر اپنے مطالبات منوانے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک فیصلہ کر لیں، دونوں اکھٹے مزید نہیں چل سکتے۔