آج 28مئی ہے ، آج سے ٹھیک 27برس پہلے پاکستان نے تمام تر بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کرکے اپنے پیدائشی دشمن اور موذی پڑوسی بھارت کے شر سے بچنے کے لیے اس کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چاغی کے پہاڑوں میں کامیاب ایٹمی تجربات مکمل کرکے باضابطہ طور پر دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال پاکستان کی کامیابی و سرفرازی کا یہ دن ”یوم تکبیر” کے ایمان افروز عنوان سے منایا جاتا ہے۔
امسال یہ دن ہم ایک ایسے وقت میں منارہے ہیں جب چند روزقبل ہی بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت کا منہ توڑ اور دندان شکن جواب دے کر پاکستان نے ایک بار پھر دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کا دفاع نہ صرف یہ کہ جوہری اسلحے کے میدان میں کسی بھی موذی دشمن کے لیے ناقابل تسخیر ہے بلکہ روایتی جنگ اور جدید عسکری ٹیکنالوجی بالخصوص فضائی حربی صلاحیت میں بھی پاکستان دشمن سے سو قدم آگے ہے۔ اس پس منظر میںآج کے دن یوم تکبیر مناتے ہوئے پاکستانی قوم کے جذبات و احساسات کچھ مختلف نوعیت کے نظر آتے ہیں اور پاکستان کا بچہ بچہ اپنے وطن کے دفاع و سلامتی کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کے عزم اور جذبے سے سرشار نظر آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص کے نام سے لڑے جانے والے” معرکہ حق” نے پاکستان کے پچیس کروڑ عوام کے حوصلوں اور ولولوں کو نئی بلندیوں سے آشنا کردیا ہے اور پاکستان کے ہر باشعور شہری کے ذہن کو اس حوالے سے بالکل صاف کردیا ہے کہ پاکستان کاا صل دشمن کون ہے اور اس دشمن کے مقابلے کے لیے پاکستان کو کس قسم کی تیاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ معرکے کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آچکی ہے کہ پاکستان کے خلاف مذموم عزائم میں بھارت اکیلا نہیں ہے، اسے اس کے” فطری حلیف ” اور قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی بھی علانیہ حمایت حاصل ہے۔ یہود و ہنود کا یہ عالمی گٹھ جوڑ پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنے دیرینہ عزائم کی تکمیل کے لیے بہت عرصے سے سرگرم ہے۔ اس گٹھ جوڑ کو کچھ دیگر عالمی قوتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ایٹمی سرگرمیوں میں پہل کرنے کے باوجود بھارت کے ایٹمی پروگرام پر کسی کو تشویش نہیں ہوتی ، اس کے ایٹم بموں کو” ہندوبم” نہیں کہا جاتا، اسرائیل غیر علانیہ ایٹمی طاقت ہے جس کے پاس مبینہ طور 400سے زائد ایٹم بم ہیں لیکن اس سے جوہری پھیلاؤ کے خلاف سرگرم عالمی ایجنسیوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی، اسرائیل کے ایٹم بم” یہودی بم” نہیں کہلاتے جبکہ پاکستان جوابی اقدام کے طور پر ایٹمی دھماکے کرتا ہے تو پوری دنیا میں واویلا مچ جاتا ہے اور پاکستان کے ایٹم بموں پر فوراً سے پیشتر ہی ”اسلامی بم” کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بھارت کے ایٹم بموں کی چابیاں عملی طور پر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں جاچکی ہیں جو ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے جانے اور مانے ہوئے حلف یافتہ رکن رہے ہیں اور جن کے ہاتھوں پر ہزاروں مسلمانوں کا خون لگا ہوا ہے، وہ اس وقت بھی صبح و شام جنگ کی باتیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل میں ایک ایسی حکومت ایٹمی اسلحے پر بیٹھی ہوئی ہے جس کا سربراہ نیتن یاہو کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کاوارنٹ جاری ہوچکاہے اور اس کے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ غزہ کے باشندوں پر ایٹم بم گرانے کی کھلے عام دھمکیاں دیتے پھر رہے ہیں، اس پر کسی کے ماتھے پر شکن نمودار نہیں ہوتی جبکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں صبح و شام ”انتہا پسندوں کے ہاتھ لگنے ” کی یاوہ گوئی کی جاتی ہے ۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ چند بڑی طاقتوں کی منافقت ہی ہے۔ ان طاقتوں کے اندھے تعصب اور ہٹ دھرمی پر مبنی رویے اور پالیسیوں نے دنیا کو ایک جنگل بنا دیا ہے جہاں انصاف نام کی شے عنقا ہوچکی ہے۔
ایسے حالات میں پاکستان جیسے ممالک کو اپنے دفاع اور سلامتی کے حوالے سے ہر وقت بیدار اور تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان آج مضبوط اور مستحکم دفاعی قوت کی حیثیت سے دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ دوستوں اور دشمنوں کو پاکستان کی دفاعی صلاحیت کا ادراک ہے اوراگر کسی کو کوئی غلط فہمی تھی تو وہ حالیہ معرکہ حق کے دوران دور ہوچکی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی استحکام ، امن و امان کی صورتحال کی مزید بہتری اور بالخصوص معاشی میدان میں ترقی اور خود انحصاری کی منزل کے حصول پر بھی توجہ دیں۔ قرائن و آثار بتارہے ہیں کہ دشمن نے جنگی محاذ پر شکست کھانے کے بعد ایک بار پھر پاکستان پر اپنے آلہ کار عناصر کے ذریعے اندر سے وارکرانے کی حکمت عملی پر کام تیز کردیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعد اب سندھ کے اندر بھی” حقوق ”کے نام پر فساد پھیلانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ہمیں ان سازشوں کے مقابلے میں ہوشیار رہنا ہے اور ملک کی داخلی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں جہاں محروم طبقات کے حقیقی مسائل ہیں، ان کو حل کرنے اور عوام کو ان کے جائز حقوق فراہم کرنے پر بھی توجہ مطلوب ہے۔ علاوہ ازیں داخلی و سیاسی مسائل کو حتی الامکان افہام و تفہیم سے حل کرنے اور طاقت کے غیر ضروری استعمال سے گریز کی ضرورت بھی مسلم ہے۔
اسی طرح یہ امر محتاج بیاں نہیں کہ آج کے دور میں دفاع اور معیشت لازم و ملزوم ہیں۔ ہم معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں گے تو دفاعی محاذوں پر بھی دشمن قوتوں کو بہتر مقابلہ کرسکیں گے۔ معاشی استحکام کے لیے حکومت کو غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کی تجربہ کاراقتصادی ٹیم سے لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ معیشت کی بحالی اور آیندہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے گی۔ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم کی کوششوں کے نتیجے میں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آنے کی کچھ امیدیں روشن ہوچکی ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، ایران ، قطر اور کویت کے ساتھ سرمایہ کاری کے منصوبوں پر معاہدے ہورہے ہیں، اس کے نتیجے میں ملکی کرنسی کی قدر نسبتاً بہتر ہوگئی ہے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان غالب ہے اور مہنگائی میں کچھ کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنی معاشی کار کردگی کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دے اور پاکستان کو جوہری طاقت کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط معاشی طاقت بنانے کے لیے بھی انتھک کام کیا جائے۔ یوم تکبیر وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے عہد اور عزم کا دن ہے۔