رپورٹ: علی ہلال
آپریشن سندور کے بعد بھارتی پولیس اور حکومتی اداروں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ پاک بھارت جنگ کے بعد ایک ہفتے کے دوران درجنوں ایسے مسلمان کارکنوں ، صحافیوں اور نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ہے جو پہلے سے ہی بھارتی اداروں کی نظر میں تھے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق پولیس ایسے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کررہی ہے جو بھارت میں مسلمانوں کے مکانات منہدم کرنے، مسلم مخالف سرگرمیوں پر تنقید کرنے اور بھارتی وقف املاک پر حکومتی قبضے کے خلاف بولتے اور لکھتے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اُترپردیش پولیس نے گزشتہ ہفتے ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں کارروائی کی ہے۔اس میں آگرہ میں تاج محل کو جلانے کا ایک اے آئی جنریٹیڈ فرضی ویڈیو، شاہجہاں پور میں ایک دہشت گردانہ حملہ، جو حقیقت میں کبھی ہوا ہی نہیں، پاکستانی فوج کی حمایت کی تصویریں، ویڈیو اور ڈسپلے پکچرز وغیرہ شامل ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ انہوں نے اب تک ریاست بھر سے کم ازکم 25 افراد کو سوشل میڈیا پر اینٹی نیشنل اور گمراہ کن پوسٹوں کے ذریعے افواہیں پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 40 سوشل میڈیا اکاو¿نٹ کے خلاف کارروائی کر کے انہیں بلاک کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ اس کارروائی میں مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت کرنے والا مواد شیئر کرنے یا پوسٹ کرنے پر لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس میں مورفڈ اور اے آئی جنریٹیڈ پوسٹ بھی شامل ہیں۔
یوپی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی پوسٹ کی شناخت کے لیے 24 گھنٹے سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں بریلی میں پولیس نے فخرالدین نامی ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے انسٹاگرام پر پاکستانی فوج کی تعریف کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کیا تھا۔ اس ویڈیو میں پاکستانی جھنڈا دیکھا گیا تھا۔ بریلی کی پولیس سپرنٹنڈنٹ (جنوبی) انشیکاورما نے کہا کہ فخرالدین کو اپنے فیس بک پروفائل پر ’اینٹی نیشنل‘مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 (2) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جو مختلف مذہبی، نسلی یا علاقائی گروہوں یا ذاتوں کے درمیان عداوت، نفرت یا تعصب پیدا کرنے کے امکان والے جھوٹے بیان، افواہ یا خطرناک خبریں بنانے، شائع کرنے یا پھیلانے سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ سنبھل میں جماعت علی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا، جن پر مبینہ طور پر ایک فیس بک ویڈیو شیئر کرنے کا الزام ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے ایک ہندوستانی رافیل لڑاکا طیارہ مار گرایا ہے اور ہندوستانی پائلٹ کو قیدی بنالیا ہے۔ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق علی پر ایک پاکستانی چینل کی کلپ شیئر کرنے کا الزام ہے جس میں 2019ءمیں بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد ہندوستانی لڑاکا پائلٹ ابھینندن کے گرفتار کیے جانے کے ساتھ رافیل جیٹ کو مبینہ طور پر گرائے جانے کا موازنہ کیا گیا تھا۔
الیکٹرک ٹاور پر کام کر کے اپنی روزی کمانے والے علی کے خلاف بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جو ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیوں سے متعلق ہے۔ پولیس نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ان کا فعل انڈیا کے خلاف علیحدگی پسندی کے جذبات کو جنم دے سکتا ہے اور یہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت پر کاری ضرب ہے۔ بریلی میں 22 سالہ درزی محمد ساجد کو بھی پاکستان کی حمایت میں ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ شاہجہاں پور میں تین سوشل میڈیا پروفائل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جن میں ایک ’انکت کمار 71010‘ اور ’پروندا2023‘ شامل ہے۔ ان پر ضلع میں مبینہ دہشت گردانہ حملے کا فرضی ویڈیو پوسٹ کرنے کا الزام ہے۔باغپت میں پاکستان کے حق میں پوسٹ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹ پاکستان کی حمایت کو فروغ دیتی ہے اور حکومت کے خلاف ہے۔ اسی طرح کوشامبی میں افسر علی گھوسی نامی ایک شخص کو ایک کارٹون پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ایک شخص کو ہندو دیوتا کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس کا کیپشن ’پاکستان زندہ باد‘ دیا گیا ہے۔ تاہم اس کا فریم بنگلادیش کا لگتا ہے جیسا کہ قومی پرچم سے ظاہر ہوتاہے۔
اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے نوشاد کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج کو ’طاقتور‘ بتایا گیا تھا۔ بریلی میں ساجد نامی شخص کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ’پاکستان زندہ باد‘ پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بعدازاں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں اسے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں پاکستان مخالف نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا۔ مظفرنگر میں ذیشان نامی شخص کو ہندوتوا گروپوں کے احتجاج کے بعد گرفتار کیا گیا جس میں اس پر ایک ویڈیو پر پاکستان کے حق میں تبصرہ پوسٹ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ایک اور شخص محمد ریاض کو سنبھل میں مبینہ طور پر پاکستانی پرچم کو اپنی اسٹوری میں استعمال کرنے اور ریل شیئر کر کے ہندوستان کے خلاف فوجی کارروائی میں کھلے عام پاکستان کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔اس معاملے پر سنبھل کے ایس پی کرشن بشنوئی نے کہا اپنی پوسٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ چاہے جو ہو جائے، ہم صرف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔پولیس افسر نے کہا کہ ریاض کی پوسٹ جان بوجھ کر کی گئی جس میں’ہندوستان میں علیحدگی پسند رجحانات‘ کو فروغ دیا گیا۔
میرٹھ میں کچھ دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سےددلشاد نامی شخص کے واٹس ایپ ڈسپلے پکچر کے طور پر پاکستانی پرچم والی ایک لڑکی کی تصویر پر اعتراض کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا۔ مظفرنگر میں انورجمیل نامی شخص کو سوشل میڈیا پر ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے کا ایک بغیر تاریخ والا ویڈیو شیئر کیے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ اپنے چھوٹے سے ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد جمیل نے ایک کلپ اپلوڈ کرکے واضح کیا کہ متنازعہ ویڈیو پرانا تھا اور اس نے یہ تبصرہ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے دوران اپنے دوست کے ساتھ شرط لگانے کے حصے کے طور پر کیا تھا۔ مظفرنگر سٹی سرکل آفیسر راجو کمار ساب نے کہا کہ اس ویڈیو کی تصدیق کی جارہی۔
