مصنوعی ذہانت اور علم الفرائض

تیسری قسط:
مغربی ممالک اور وراثت کے قوانین
وراثت کے قوانین صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ مغربی ممالک مثلاً امریکا، کینیڈا، فرانس، برطانیہ وغیرہ میں بھی وراثت کے قوانین موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی صاحبِ علم مغربی ممالک میں رائج ان وراثت کے قوانین کا تقابل اسلامی قانونِ وراثت سے کرے اور مغربی ممالک میں رائج انسانی عقل سے بنائے گئے وراثت کی قوانین کے نقائص کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں واضح کرے۔ مثلاً اسلام میں مختلف وارثین کے حصے اور بہت ہی گہرائی میں میراث کی تقسیم کے قوائد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔

انہی وارثین سے متعلق مغربی ممالک میں رائج وارثت کے قوانین کو دیکھا جائے اور پھر دونوں قوانین (اسلامی و مغربی) کا تقابل کیا جائے اور یہ عقلی دلائل سے ثابت کیا جائے کہ اسلام کے قانونِ وراثت کو اختیار کرنے سے معاشرے میں انصاف قائم ہوتا ہے، فیملی سسٹم قائم پنپتا ہے اور وارثین کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ عقلی دلائل غیر مسلم لوگوں کے لیے ہوں گے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر مسلم ان دلائل کو پڑھ کر شاید اسلام کی روشنی میں داخل ہو جائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان کو تو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے سامنے اپنا سرتسلیمِ خم کرتا ہے خواہ وہ حکم اس کے عقل میں آئے یا نہ آئے کیونکہ وحی کا آغاز ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں جا کر انسانی عقل کی انتہاء ہو جاتی ہے۔

مصنوعی ذہانت سے علم الفرائض کی خدمت اور اس کے حدود و قیود
کمپیوٹر سائنس میں ترقی کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ فکر ہوئی کہ کیوں نہ اس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علمِ الفرائض کی بھی خدمت کی جائے۔ اس تناظر میں کئی جہتوں پر کام ہوا۔ اول کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے وراثت کے مسائل کو کاغذ پر پرنٹ کیا جانے لگا۔ دوم، علمِ الفرائض کی کتابوں کی ڈیجیٹلائڑڈ کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ سوم ایسے سافٹ وئیر بنائے گئے جن میں شریعت کے متعین کردہ اصول پروگرام (اندراج) کر دیئے جاتے اور پھر وہ سافٹ وئیر ان قوانین کی روشنی میں ورثاء کے حصے بتا دیتا۔ بات یہاں پر نہ رکی بلکہ جیسے جیسے کمپیوٹر سائنس میں مزید ترقی ہوتی گئی، بعض لوگوں نے کمپیوٹر سائنس کی اس ترقی کو علمِ الفرائض پر بھی لاگو کرنا شروع کر دیا اور یہ رجحان عصری یونیورسٹیوں میں بالخصوص نظر آیا جہاں طلبہ اپنی پی ایچ ڈی کے دوران علمِ الفرائض کو اپنا تختہ مشق بناتے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص مسلمان ممالک میں موجود عصری تعلیمی یونیورسٹیوں کی کلیہ الشریعہ و کلیہ اصول الدین اور مغربی ممالک کے لادینی عصری اداروں میں اسلامی دینی تعلیم کے ڈیپارٹمنٹس، غرض دونوں ہی قسم کے اداروں میں موجود مدرسین اور طلبہ کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت کا علمِ الفرائض میں اطلاق کرکے تحقیق کرتے نظر آتے ہیں اور اس کے لیے وہ انگریزی مجلات و سائنسی تحقیقی جرائد میں اپنے مقالے چھاپتے ہیں۔ ان تحقیقی مقالوں کو پڑھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کیونکہ ان میں زیادہ تر تحقیقی مقالوں میں کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت کی بہت ہی سطحی تکنیکی معلومات کی بنیاد پر مقالہ تحریر کیا گیا ہوتا ہے۔ الغرض، ایک طرف ایسی کوششیں کی گئیں جس کے ذریعے علمِ الفرائض کے مسلمہ قوانین کو پسِ پشت ڈالا گیا جبکہ دوسری طرف یہ بات پھیلائی گئی کہ اب چونکہ کمپیوٹر سافٹ وئیر کی مدد سے ہم خود ہی وراثت کے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لہذا علم الفرائض کے مسائل معلوم کرنے کے لیے مفتیانِ کرام سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں!

اسی پر بس نہیں بلکہ اب تو یہ کوششیں ہورہی ہیں کہ مدارسِ دینیہ کے اندر کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت کو اس حد تک رواج دیا جائے کہ خود مفتیانِ کرام ہی وراثت کے مسائل کا حل کمپیوٹر سے پوچھیں۔ نیز اس موضوع پر سوشل میڈیا پر کئی پوڈ کاسٹ بھی کی گئی ہیں اور کہا گیا کہ آنے والا زمانہ ٹیکنالوجی کا ہے اور ”لوگوں کا سب سے بڑا عالم چیٹ جی پی ٹی ہوگا”۔ یعنی بعض صاحبانِ علم کی جانب سے یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ مدارسِ دینیہ میں پڑھنے والے طالبعلم حضرات علمِ الفرائض سے متعلق سوالات مصنوعی ذہانت کے پروگرامز مثلاً چیٹ جی پی ٹی وغیرہ سے پوچھیں۔ مدارسِ دینیہ کے طلبہ کرام کو یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ وارثت کے مسائل کی تخریج ہو یا قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر، حدیث کا متن تلاش کرنا ہو یا کسی فقہی عبارت کا خلاصہ بیان کرنا، غرض یہ تمام کام مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے کر لیا جائے۔ حتیٰ کہ اگر جمعہ کا خطبہ تیار کرنا ہے تو اس کے لیے موضوع کا انتخاب اور اس پر دینی مواد کا حصول چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے کرلیا جائے۔ یعنی مصنوعی ذہانت کے پروگرام چیٹ جی پی ٹی سے کہا جائے کہ ہمیں دو صفحات کا ایک خطبہ مہیا کرے جس میں دو قرآنی آیات، تین احادیث، اور دو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اقوال کی روشنی میں عورتوں میں وراثت کی تقسیم کی اہمیت پر بات کی گئی ہو۔

نیز بعض صاحبانِ علم کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ چونکہ جدید دور ہے اور عوام الناس کی اکثریت اب علمائے کرام، مفتیانِ کرام اور دارالافتاء سے رہنمائی نہیں لیتی لہٰذا وہ لامحالہ اب چیت جی پی ٹی سے ہی دینی مسائل پوچھیں گے۔ چونکہ ان مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کو بنانے والے مغربی ممالک ہیں اور اگرچہ ابھی یہ کمپیوٹر پروگرامز بعض صورتوں میں صحیح جواب دے رہے ہیں مگر مستقبل میں اگر انہوں نے ان سافٹ وئیر میں جوہری تبدیلی کر دی تو شریعت کے تعلیمات بالکل تبدیل ہو جائیں گی۔ لہٰذا اگر ہم خود ایسے مصنوعی ذہانت کے پروگرامز بنا لیں جو کہ صحیح دینی مسائل بتا سکیں تو اس سے امتِ مسلمہ کو رہنمائی ملے گی۔ اس سلسلے میں ایک نوجوان صاحبِ علم نے سوشل میڈیا پر اشتہار نشر کیا کہ انہیں مصنوعی ذہانت کے ماہرین درکار ہیں جو کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے سافٹ وئیر بنا سکیں تا کہ جب کوئی ان سافٹ وئیر سے دینی مسئلہ پوچھے تو یہ سافٹ وئیر صحیح رہنمائی کر سکیں۔

قارئین یاد رکھیے کہ جو لوگ مصنوعی ذہانت سے متاثر ہیں وہ تاویلات کے دروازے کھولیں گے کہ مصنوعی ذہانت کا رد کیا جائے، اس کے مقابل پروگرامز بنائے جائیں اور مصنوعی ذہانت کا تدارک کیا جائے۔ اصولی طور پر بالکلیہ مصنوعی ذہانت کا رد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اگر رد کرنا بھی ہے تو اس کے لیے بہت اعلیٰ معیار کی سائنسی تحقیق درکار ہوگی جو کہ پاکستان میں موجود نہیں۔ نیز جو لوگ مدارسِ دینیہ میں رہتے ہوئے دینی و دنیاوی تعلیم کے حسین امتزاج کے عنوان سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انہوں نے مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں چوٹیاں سر کرلیں ہیں تو ان کو سراسر دھوکہ ہوا ہے، وہ خود بھی گمراہ ہورے ہیں اور عوام کو بھی دھوکہ میں ڈال رہے ہیں۔ باتیں اونچے درجے کی کرتے ہیں مگر عملی تحقیق سے کوسوں دور ہیں۔ ہمیں ایسے صاحبانِ علم کی نیت اور خلوص پر شک نہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ چونکہ یہ حضرات جدید سائنسی علوم کے ماہرین نہیں ہیں لہٰذا ان حضرات کو مصنوعی ذہانت سے متعلق شدید دھوکہ ہوگیا ہے اور وہ شاید مصنوعی ذہانت سے اتنے متاثر و مرعوب ہوچکے ہیں کہ بس ہر قیمت پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال علم الفرائض اور دیگر دینی علوم میں کرنا چاہتے ہیں۔ (جاری ہے)