اسلام کا تصورِ جہاد

پانچویں وآخری قسط:
آج کے دور میں ”سنت نبوی کی روشنی میں جہاد کا مفہوم” یہ ہے کہ: ٭ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور آسمانی تعلیمات کی عمل داری کی طرف لانے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی جائے۔ ٭ اسلام کی دعوت اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو نسل انسانی کے ہر فرد تک پہنچانے اور اس کی ذہنی سطح کے مطابق اسے دعوت اسلام کا مقصد و افادیت سمجھانے کا اہتمام کیا جائے۔

٭ ملت اسلامیہ کو فکری وحدت، سیاسی مرکزیت، معاشی خود کفالت، ٹیکنالوجی کی مہارت، اور عسکری قوت و صلاحیت کی فراہمی کے لیے بھرپور وسائل اور توانائیاں بروئے کار لائی جائیں۔ ٭ مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی تعمیر کے لیے تگ ودو کی جائے نیز دینی تعلیم و تربیت کے نظام کو ہر سطح پر مربوط و منظم کیا جائے۔

٭ مظلوم مسلمانوں کو ظلم و جبر سے نجات دلانے اور ان کے دینی تشخص اور علاقائی خود مختاری کی بحالی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔ ٭ مسلم ممالک میں قرآن و سنت کی عملداری اور شرعی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کر کے تمام مسلم ملکوں کو عالمی سطح پر کنفیڈریشن کی صورت میں خلافت اسلامیہ قائم کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ ٭ دینی جذبہ و غیرت کے تحت ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں ہتھیار اٹھانے والے مجاہدین کو عالمی استعمار کے ہاتھوں ذبح کرانے اور ان کے قتل عام پر خوش ہونے کے بجائے ان کو بچانے کی کوشش کی جائے اور اس عظیم قوت کو ضائع ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے انہیں ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی معنوں میں ایک کارآمد قوت بنانے کی راہ نکالی جائے۔

٭ اسلامی تعلیمات، قرآن و سنت کے قوانین اور جہاد کے بارے میں عالمی استعمار اور مغربی تہذیب کے علمبرداروں کے یک طرفہ اور معاندانہ پروپیگنڈے سے متاثر و مرعوب ہونے کے بجائے اس کو مسترد کیا جائے اور دلیل و منطق کے ساتھ اسلامی احکام اور جہاد کی ضرورت و افادیت سے دنیا کو روشناس کرایا جائے۔یہ کام دراصل مسلم حکومتوں کے کرنے کے ہیں اور انہیں او آئی سی کے عملی ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہیے لیکن اگر دینی مراکز اور اسلامی تحریکات بھی باہمی ربط و مشاورت کے ساتھ ان مقاصد کے لیے مشترکہ پیش رفت کا اہتمام کر سکیں تو حالات کو خاصا بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کی سالانہ سیرت کانفرنس میں ”سیرت نبوی کی روشنی میں جہاد کا مفہوم” کے عنوان سے راقم الحروف کی گزارشات قارئین کی نظر سے گزر چکی ہیں۔ اس کانفرنس کے مہمان خصوصی اسلامی نظریاتی کونسل کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان تھے جنہوں نے اپنے اختتامی خطاب میں راقم الحروف کی معروضات کو سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح رخ پر مطالعہ کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ آج کے عالمی حالات اور مشکلات و مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت نبوی کے اسی طرز کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری گزارشات کے حوالہ سے دو پہلوؤں پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار فرمایا جن کے بارے میں خود میرا بھی خیال ہے کہ ان کی وضاحت ضروری تھی ۔ اس سلسلے میں راقم نے ایک الگ کالم کی شکل میں درج ذیل معروضات پیش کیں۔

ایک بات تو یہ ہے کہ مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے سے کیا مراد ہے؟ ڈاکٹر صاحب کا ارشاد ہے کہ: ٭ اگر تو اس سے مراد مذہب کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے تو اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ ٭ اور اگر اس کا مطلب مذہب کی تبلیغ کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے تو یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی کافر کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن کریم نے سورہ بقرہ آیت ٢٥٥ میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ”دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں۔”

مجھے ڈاکٹر صاحب موصوف کی دونوں باتوں سے اتفاق ہے لیکن یہ معاملہ ان دو صورتوں میں محدود نہیں ہے بلکہ ایک اور صورت بھی درمیان میں موجود ہے جس کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے عام طور پر یہ الجھن پیش آ جایا کرتی ہے۔ وہ ہے کچھ قوموں اور گروہوں کا اسلام کی دعوت و تبلیغ اور نسل انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچانے میں رکاوٹ بننا۔ اور اسلام نے کافر قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حکم اسی صورت میں دیا ہے جبکہ وہ لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچنے میں رکاوٹ بن جائیں، کیونکہ اسلام یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو پیغام ہے صرف وہی نسل انسانی کی نجات کا ضامن ہے اور انسانی معاشرہ اس کے بغیر نجات و فلاح اور امن و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے جو لوگ شخصی یا مقامی دائروں میں اسلام قبول نہیں کرتے لیکن اسلام کی دعوت میں بھی رکاوٹ نہیں بنتے، اسلام ان سے کوئی تعرض نہیں کرتا اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ لیکن جو کافر اسلام قبول نہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف اس قدر معاندانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں کہ اس کی دعوت میں رکاوٹ بن جائیں تو اسلام ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کرتا ہے۔ یہ ہتھیار اٹھانا کسی کو قبول اسلام پر مجبور کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بننے سے روکنے کے لیے ہے۔ چنانچہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے حوالہ سے اپنے کمانڈروں کو یہی ہدایات دی ہیں کہ:

(١) سب سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرو، اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے اور کوئی تنازع باقی نہیں رہتا۔ (٢) لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو دوسرے نمبر پر کافروں کے سامنے یہ پیشکش رکھنے کی ہدایت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی ہے کہ اپنے کفر پر قائم رہتے ہوئے اسلام کی بالادستی (عالمی کردار) کو قبول کر لو، اگر وہ یہ درجہ قبول کر لیں تو بھی ان کی جان و مال سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا بلکہ اسلامی ریاست ان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور اسے نبھاتی ہے۔ (٣) اس کے بعد تیسرے درجہ میں یہ بات ہے کہ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں اور اسلام کی بالادستی کو قبول نہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کی راہ میں مزاحم ہیں اور رکاوٹ بن رہے ہیں، چنانچہ اس صورت میں جناب نبی اکرمۖ نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا ہے اور اسے جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتے ہوئے اس کا مقصد اعلاء کلمة اللہ بتایا ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے امریکا اور اس کے اتحادی یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو عالمی نظام اور بین الاقوامی سسٹم موجود ہے اور جس تہذیب و ثقافت نے اس وقت پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے وہی سسٹم اور ثقافت نسل انسانی کے لیے سب سے بہتر ہے اور اس سے بہتر کسی سسٹم اور کلچر کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے دنیا کا جو ملک اور قوم ان کے نزدیک اس نظام و ثقافت کے عالمی کردار کے لیے خطرہ قرار پاتا ہے وہ اس کے خلاف چڑھ دوڑتے ہیں، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور پھر ہزاروں انسانوں کی ہلاکتوں کے باوجود بڑے فخر کے ساتھ اس اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے عالمی تہذیب کو بچا لیا ہے اور ورلڈ سسٹم کو درپیش خطرات کو ختم کر دیا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک تہذیب اور نظام کو نسل انسانی کے لیے سب سے بہتر سمجھتے ہوئے اس کے عالمی غلبہ کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھائیں تو وہ کسی دوسری تہذیب اور نظام کے علمبرداروں کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتے کہ وہ اگر اپنے نظام و تہذیب کو نسل انسانی کے لیے دیانتداری کے ساتھ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس کے لیے عالمی کردار کے قیام اور تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھائیں اور اگر امریکی اپنے لیے یہ حق محفوظ رکھتے ہوئے دوسرے فریق کو اس حق سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تو اس کا نام انصاف نہیں بلکہ یہ جنگل کا قانون اور طاقت کی حکمرانی ہے جو طاقت اور اسلحہ کے زور پر تو قائم کی جا سکتی ہے لیکن اخلاقی جواز اور انصاف کی بنیاد سے محروم ہونے کی وجہ سے اسے قائم رکھنا کبھی ممکن نہیں رہا اور نہ ہی آئندہ ایسا کوئی امکان ہے۔

ڈاکٹر ایس ایم زمان نے دوسرا سوال یہ اٹھایا کہ میں نے جن چھاپہ مار کارروائیوں کا حوالہ دیا ہے ان کے حوالے سے دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کی حمایت نہیں کی جا سکتی جن میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور نہ ہی ایسی کسی کارروائی کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے جس میں کسی بستی، چوک یا ریڑھی میں بم رکھ کر بے گناہ شہریوں کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں۔ مجھے ڈاکٹر محترم کے اس ارشاد سے بھی مکمل اتفاق ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ ہر چھاپہ مار کارروائی دہشت گردی نہیں ہوتی اور ہمیں چھاپہ مار کارروائیوں اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہوئے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم کرنا ہوگی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن اشرف، ابو رافع اور اسود عنسی کے قتل کے لیے جن کاروائیوں کا حکم دیا وہ چھاپہ مار کارروائیاں ہیں اور حضرت ابو بصیر نے سمندر کے کنارے عسکری کیمپ قائم کر کے قریش مکہ کے خلاف جو کارروائیاں کیں وہ بھی چھاپہ مار کاروائیاں ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کارروائیاں متعین اہداف کے لیے تھیں اور ان کا دائرہ بھی اہداف تک محدود رہا۔ البتہ اس سے ہٹ کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سول آبادی اور بے گناہ اور غیر متعلق شہریوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی، اس کے بارے میں آپۖ کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ اور اسی وجہ سے غیر متعلقہ، بے گناہ اور نہتے شہریوں کو کسی قسم کی عسکری کارروائی کا نشانہ بنانا، اسی طرح کسی بس یا چوک میں بم رکھ کر یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم پھینک کر بے گناہ لوگوں کی جانوں سے کھیلنا یقینا دہشت گردی ہے جس کی کوئی بھی ذی شعور شخص حمایت نہیں کر سکتا۔