”گریٹر انڈیا”: نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

(ساحر لدھیانوی)۔ جنگ صرف تباہی لاتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم نے 1کروڑ 60لاکھ جانیں نگل لیں۔ دوسری جنگ عظیم میں 7کروڑ سے زائد افراد جنگ کا ایندھن بنے۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملے نے لمحوں میں لاکھوں انسانی جانیں جلا کر راکھ کر دیں۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے جنگ کوئی نہیں جیت سکتا صرف لاشیں، برباد نسلیں، یتیم بچے، بیوہ عورتیں اور بنجر زمینیں حصہ میں آتی ہیں۔ جدید ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت اور پاکستان ایئر فورس کی ماضی قریب اور موجودہ کارکردگی سے پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہو چکی ہے۔ یہ برتری مودی اور اس کے حواریوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے جو پورے ساؤتھ ایشیا کو گریٹر انڈیا (اکھنڈ بھارت) اور چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے واحد راستہ اکھنڈ بھارت سمجھتی ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا، نیپال، برما اور افغانستان انڈیا کا حصہ تھے لیکن نوآبادیاتی طاقتوں نے انڈیا کے ٹکڑے کیے۔ حالانکہ یہ ایک افسانہ ہے۔ حالیہ جنگ میں انڈین نقصانات کا جائزہ لیں تو ایک رافیل 228ملین ڈالر کا ہے۔ (پاکستانی روپے میں کم و بیش 86ارب 32کروڑ)۔ تین جہازوں کا خود اندازہ لگا لیں۔ SU 30سیخوئی جیٹ کی 2010ء میں قیمت 102ملین ڈالر تھی (دس کروڑ ڈالر) مگ 29کی کم و بیش 30ملین ڈالر۔ بریگیڈ ہیڈکوارٹر اور ایک فوجی بٹالین ہیڈ کوارٹر کی تعمیر میں بھی کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس حملے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش 96کروڑ ڈالر (2 کھرب 67ارب 68کروڑ پاکستانی) کا نقصان بھارت نے کیا۔

پاکستان کی فوجی حکمت عملی اور ایکشن کے دور رس اثرات ہوں گے ۔مودی کا سیاسی مستقبل مخدوش ہوتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کی دلیرانہ کارروائیوں سے اپنے مقاصد میں ناکامی کے باعث مودی کو جنگ بندی قبول کر نا پڑی۔ صدر ٹرمپ کی مداخلت اور امریکی وزیر خارجہ مائیک روبیو کی کوششوں اور سعودی عرب، قطر، عرب امارات کے تعاون اور حمایت سے طے پانے والی جنگ بندی سے بھارت انحراف کی راہ ڈھونڈتے ہوئے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام کرنے والے انڈیا سے پاکستان کو ہوشیار رہنا ہوگا۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری کے مطابق یہ جنگ بندی عارضی انتظام ہے جس کا جائزہ لیا جائے گا۔ پاک بھارت تصادم کے بارے میں امریکا کی لاتعلقی کا برملا اعلان کرنے والے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی جنگ کو رکوانے کے لئے اچانک سرگرم ہونے کی وجہ پاکستانی افواج کا تحمل اور جوابی مہلک کارروائیاں اور شاندار کامیابیاں تھیں، جنہوں نے بھارت کی چھیڑی ہوئی جنگ کو بھارت کی اخلاقی، عملی، سیاسی اور سفارتی شکست میں تبدیل کر دیا۔ رقبے، آبادی اور اکانومی کے لحاظ سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے، لیکن دفاعی صلاحیت نے اسے بھارت کے ہم پلّہ بنا دیا ہے۔

مودی کی عقل میں یہ بات نہیں آسکی کہ اسلحہ نہیں اسے چلانے والے کا جذبہ، بہادری اور نڈر ہونا اہم ہوتا ہے۔ طیارے گرانے کی پاک فضائیہ کی مہارت نے دفاعی اور جدید فضائی جنگ کے ماہرین کو شدید حیرت میں مبتلا کیا۔ بھارت نے اپنی سبکی مٹانے کے لیے پاکستان کی ایئربیسز کو نشانہ بنایا جس نے پاکستان کو جوابی کارروائی پر مجبور کیا۔ پاکستان کی جانب سے اس جوابی حملے میں میزائلوں اور منظم فضائی آپریشن میں بھارتی فضائیہ کے بیس پر نصب روسی ساختہ دفاعی نظام ایس 400سمیت متعدد اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ ممکنہ ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹلنے پر جنوبی ایشیا اور دنیا نے سکون کا سانس لیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ انڈیا کیا مستقبل میں بھی ماضی کی طرح بھارت فالس فلیگ آپریشن کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتا اور جنگ کی دھمکیاں دینا رہے گا۔ دونوں ممالک نے ‘غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے’ پر اتفاق کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے پرانے مؤقف ‘جب تک پاکستان دہشت گردی کی حمایت ختم نہیں کرتا، مذاکرات نہیں ہوں گے’ سے دستبردار ہوگیا ہے۔ اُمید ہے کہ روایتی طاقت کا نیا قائم کردہ توازن مستقبل میں تنازعات کو روکے گا۔ دونوں ممالک نیو کلیئر پاور کے حامل آگ اور بارود کے ڈھیر پر کھڑے ہیں۔ جہاں چھوٹی سی چنگاری انہیں راکھ اور خاک کے ڈھیر میں تبدیل کر سکتی ہے۔ مودی کی پاپولزم اور نسل پرست سیاست کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا موسم ابھی دور ہے۔ ”بنیان مرصوص” آپریشن نے گریٹر انڈیا کا خواب چکنا چور کرکے ثابت کر دیا کہ
ہم ہیں جو ریشم و کم خواب سے نازک تر ہیں
ہم ہیں جو آہن و فولاد سے ٹکراتے ہیں
ہم ہیں جو غیرت و ناموس پہ کٹ مرتے ہیں
ہم ہیں جو اپنی شرافت کی قسم کھا تے ہیں
ہم نے روندا ہے بیابانوں کو صحراؤں کو
ہم جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
ہم سے واقف ہیں یہ دریا یہ سمندر یہ پہاڑ
ہم نئے رنگ سے تاریخ کو دُہراتے ہیں
اِسی لیے مودی ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں” کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔