دوسری قسط:
ٹیکنالوجی، جدیدیت اور مصنوعی ذہانت سے حد درجہ متاثر صاحبانِ علم اور بہی خواہانِ امتِ مسلمہ سے ہم دردِ دل سے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا دینی علوم میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے کو فروغ دینے سے احتراز فرمائیے، اس سے گمراہی اور ضلالت کے نئے دروازے کھل رہے ہیں اور خدانخواستہ مزید گمراہی کے راستے کھلیں گے۔ آپ صاحبانِ علم تو علوم نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اصل وارثین ہیں، جب آپ ہی ”سند”، ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی”، ”نورانیت”، ”تقویٰ”، اور ”للہیت” کی ترغیب و عمل کے بجائے مادیت اور مشینوں کے دینی علوم میں استعمال و انحصار کی ترغیب دیں گے تو عام مسلمان کس طرف دیکھیں؟
کیا مصنوعی ذہانت کی مشین جوابدہ ہوگی؟
پھر یہ بھی سوال اٹھے گا کہ کیا مشین جوابدہ ہوگی؟ نہیں، ہر گز نہیں! مشین جوابدہ نہیں ہوسکتی۔ مصنوعی ذہانت کے عالمی اور مستند سائنسی ماہرین مصنوعی ذہانت کی خامیاں اور کمزوریاں گنواتے نہیں تھکتے۔ مثلاً یونیورسٹی آف گلاسگو، برطانیہ کے ڈاکٹر جو سلیٹر یہ کہتے ہیں کہ: ”چیٹ جی پی ٹی خود سے مواد بنادیتا ہے جسے لوگ ہیلوسینیشن سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ اس کے لیے یہ اصطلاح استعمال کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے لیے جو درست اصطلاح ہوگی وہ فضول، لغو یا بکواس کہا جائے اور اسے وہ ”فضول، لغو یا بکواس مشینوں” سے تعبیر کرتے ہیں”۔
مصنوعی ذہانت کی تکنیکی اساس اور بنیادیں رکھنے والے سائنسدانوں میں پروفیسر یان لی کن شامل ہیں۔ یہ پروفیسر ان کمپیوٹر سائنسدانوں میں شامل ہیں جن کے سائنسی تحقیقی کاموں کی بدولت انہیں ”بابائے مصنوعی ذہانت” بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں کمپیوٹر سائنس کی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ یعنی ٹیورنگ ایوارڈ سن 2018ء میں دیا گیا۔ ٹیورنگ ایوارڈ کو کمپیوٹر سائنس کا نوبل پرائز بھی کہا جاتا ہے۔ پروفیسر یان لی کن فرانسیسی نڑاد امریکی کمپیوٹر سائنسدان ہیں اور نیویارک یونیورسٹی، امریکا میں اپنی خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ یہ میٹا کمپنی (فیس بک کا نیا نام) میں چیف آے آئی سائنٹسٹ ہیں۔ پروفیسر یان لی کن یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ مصنوعی ذہانت کسی بھی معنوں میں ذہین نہیں ہے۔ پروفیسر یان لی کن کہتے ہیں کہ ”گھریلو پالتو بلی کے اندر جو صلاحیت، صفات، اور ذہانت پائی جاتی ہے مثلاً کہ وہ اپنے دماغ میں حقیقی دنیا کا ایک ماڈل بناتی ہے، اس کی قائم رہنے والی یاداشت، اس کی استدلال کی صلاحیت، اور منصوبہ بندی کی استعداد، یہ سب چیزیں مروجہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں نہیں پائی جاتیں حتی کہ ”میٹا” کمپنی کے اپنے بنائے گئے ماڈلز میں بھی نہیں”۔
کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کو مصنوعی ذہانت کی خامیوں اور حدود و قیود کا بخوبی علم ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عالمی ماہرین، سائنسدان و محققین جانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت میں حقیقی طور پر کتنی ”ذہانت” موجود ہے لہذا سنجیدہ عالمی مستند سائنسدان مصنوعی ذہانت سے متعلق بہت ہی واضح موقف رکھتے ہیں۔ مسئلہ جب سے شروع ہوا ہے کہ جب عالمی سرمایہ کاروں نے اپنی ٹیکنالوجیکل کمپنیوں کے ذریعے اپنے سرمائے کا بڑھانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے غبارے میں بے تحاشہ ہوا بھری ہے اور عالمی ریگولیٹری اداروں اور حکومتوں پر اثر انداز ہوکر اس کو وسیع پیمانے پر رائج کرنے کی کوششیں شروع کرچکے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاروں، حکومتوں اور ٹیکنالوجیکل کمپنیوں کی اتنی وسیع سرمایہ کاری کی وجہ سے ہر طرف مصنوعی ذہانت کے چرچے ہیں اور عوام الناس کے سامنے سے مخلص ومستند عالمی سائنسدانوں و محققین کی سائنسی تحقیقات اور مصنوعی ذہانت کی خامیاں اور حدود و قیود اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ مصنوعی ذہانت کی رسی اب عالمی معیشت پر کنٹرول کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس وسیع و عریض پروپیگنڈے کے پیچھے کارفرما ہیں۔
اس سے اندازہ لگائیے کہ بعض صاحبانِ علم کس پروپیگنڈہ سے متاثر ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے عالمی ماہرین، سائنسدان اور محققین مصنوعی ذہانت کو ”فضول، لغو یا بکواس مشینوں” سے تعبیر کرتے ہیں اور جو اس سے کمانے والے لوگ ہیں وہ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں کہ آئندہ زمانہ مصنوعی ذہانت کا ہوگا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اہلِ علم کو کن سے متاثر ہونا چاہیے؟ مصنوعی ذہانت سے کمانے والوں کے پروپیگنڈہ سے یا مصنوعی ذہانت کی ایجادکرنے والے سائنسدان اور محققین کی باتوں سے؟ اہلِ علم حضرات کے نزدیک کس کی بات کی اہمیت ہوگی یہ صاحبانِ علم خود فیصلہ فرما لیں۔
پھر ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا میراث کے انتہائی اہم مسائل جن کے جواب پر عمل کرنے اور نہ کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کا مدار ہے (اور اس دنیاوی زندگی کا بھی مدار ہے مثلاً غلط جواب دینے کی صورت میں کسی وارث کا حق محروم ہو سکتا ہے)، اس کے لیے ہم ایسی ”فضول، لغو یا بکواس مشینوں” پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہم اپنی آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو داؤ پر لگا سکتے ہیں؟ نیز، آخرت میں ان مصنوعی ذہانت کی حامل مشینوں سے اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی بازپرس نہیں ہوگئی اور نہ ہی دنیاوی قوانین کے تحت یہ مصنوعی ذہانت کی مشینیں جوابدہ ہیں۔ (جاری ہے)