پاکستان۔ عالم اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ

اس جنگ کا آغاز 9مئی سے ہوا۔ 10مئی کی رات انڈیا نے پاکستان کی 9اہم تنصیبات پر میزائل داغ کر جنگ تیز کر دی۔ پاکستان نے جواب میں انڈیا کی 26اہم تنصیبات پر حملہ کر کے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان دودنوں میں پاکستان نے نہ صرف ڈاگ فائٹ میں ناکوں چنے چبوائے بلکہ ان کے میزائل سسٹم تباہ کئے اور ان کے 78اسرائیلی ڈرونز کو فضا میں ہی مار کر نئی جنگی تاریخ رقم کر دی۔ یوں دنیا پر پاکستان کی دھاک بیٹھ گئی، پاکستان ناقابل تسخیر قلعہ ثابت ہوگیا۔ مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا بے پایاں احسان و کرم ہے کہ ہم آج ایک ایسے ملک میں بیٹھے ہیں جس کو بعض ایسے خصوصی امتیازات حاصل ہیں کہ 57اسلامی ملکوں میں سے کوئی ملک بھی ان میں اس کی ہمسری تو درکنار پاسنگ میں بھی نظر نہیں آتا۔ ان امتیازی خصوصیات کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے تاکہ ہمیں ان کی قدر معلوم ہو۔ پاکستان میں دینی اداروں، تحریکوں اور مسجد و منبر کو جو مذہبی آزادی حاصل ہے وہ کسی اسلامی ملک میں نہیں ہے۔ آپ جو چاہیں پڑھائیں، جو چاہیں لکھیں اور جو چاہیں بولیں۔ اخبارات کی حد تک علماء کی زبان بندی اور مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بہت باتیں ہوتی ہیں، مگر عملاً ہمارے نصاب میں ایک شوشہ کی تبدیلی نہیں کی جا سکی۔ اگر موجودہ اِسلامی دنیا کے اہم ممالک مصر، شام، ترکی وغیرہ کے حالات پر اس حوالے سے ایک نظر ڈالی جائے تو فرق خوب معلوم ہوسکتا ہے۔ پاکستانی عوام میں دین کے لیے قربانی دینے کا غیرمعمولی جذبہ پایا جاتا ہے۔ دینی تہذیب و تمدن کے جو مظاہر اس وقت پاکستان میں دیکھے جاسکتے ہیں اس پر بجا طور پر عالم کفر ازحد پریشان ہے۔ دینی تحریکوں کے لیے جوبے مثال قربانی دی گئی اسی طرح ناموس رسالت اور اس جیسے دیگر حساس معاملات پر قوم میں دینی غیرت اور حمیت کی جو ایک برق دوڑ جاتی ہے وہ مذہب کے ساتھ والہانہ تعلق کا ثبوت ہے۔

پاکستان کے عوام کو جہاد کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ تین جنگیں ہندوستان سے ہوئیں جس کو جہادی جوش و خروش کے ساتھ لڑا گیا اور اس طرح افغانستان میں ہونے والے جہاد کے تینوں ادوار میں پاکستان ایک بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہوا۔ چاہے وہ روس سے جہاد کا دور تھا یا طالبان کا سات سالہ دور یا نیٹو فورسز کے خلاف جہاد ہو۔ جہاد سے اس قریبی تعلق اور مشاہدے نے بھی سرفروشی اور جفا کشی کے جذبات پیدا کیے ہیں جس سے مادہ پرستی اور تنعّم کی زندگی بسر کرنے والی قومیں کوسوں دور ہوتی ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اس کو عالم اسلام میں ایک غیر معمولی مقام دلاتی ہے۔ ایک طرف بحیرۂ عرب ہے جو ایک آبی شاہراہ ہے دوسری طرف گلوب پر غیر معمولی اہمیت رکھنے والے چین، ہندوستان اور ایران جیسے ممالک ہیں۔ تیسری طرف افغانستان ہے جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی اور مضبوط فوج پاکستان کی ہے جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ عالم کفر کو کسی اسلامی ملک میں اس قسم کی تربیت یافتہ، عددی طور پر بہت بڑا حجم رکھنے والی اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا دنیا بھر سے لوہا منوانے والی فوج کا وجود کسی طور قابل قبول نہیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں تمام بڑے فیصلے انٹیلی جنس رپورٹس اور خفیہ جاسوسی و تحقیقاتی اداروں کی رائے کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کا انٹیلی جنس ادارہ آئی ایس آئی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا کی چند بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان کا آئین اس ملک میں اسلام کو جو تحفظ دیتا ہے وہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور قابل قدر دستوری تحفظ ہے۔ اس میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب ماننا، حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ کو ماننا، قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کا ممنوع ہونا، اسلامی تہذیب اور عربی زبان کو فروغ دینے کا حکومتوں کو پابند کرنا، صدر و وزیر اعظم کا مسلمان ہونا وغیرہ و غیرہ ایسی دفعات ہیں جو سعودی عرب کے علاوہ شاید ہی کسی اسلامی ملک کے قانون کا حصہ ہوں۔نیز جید علمائے کرام کی تیار کردہ قرارداد مقاصد آ ئین کا مستقل حصہ ہے۔ پاکستان عالم اسلام کا واحد ایٹمی صلاحیت سے لیس ملک ہے بلکہ اس وقت اس کا شمار دنیا کے فقط ان آٹھ ممالک میں ہوتا ہے جو ایٹمی طاقت کہلاتے ہیں۔

پاکستان کی اِسی جوہری صلاحیت پر بھروسہ کرکے بہت سے اسلامی ممالک اپنے دشمنوں کے خوف سے آزاد ہیں۔ حرمین شریفین کی طرف اٹھنے والی میلی نگاہوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوجی اور جوہری صلاحیت ہے جس کا ماضی میں ان کو تجربہ ہوچکا ہے۔ ‘وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ’ کی اس دور کی سب سے اعلیٰ صورت جوہری صلاحیت ہی ہے جو بفضل خدا اس ملک کو حاصل ہے۔ ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو بلا شرکت غیرے عالم اسلام کا قائد اور رہنما مانا جا سکتا ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان مثبت سوچ اور تعمیری فکر کے ساتھ دینِ اسلام کی سر بلندی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔