غزہ/بیروت/تل ابیب: حماس اور امریکی انتظامیہ کے درمیان غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ امدادی سامان سے لدے ہوئے ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیلی صدر آئزک ہرتزوگ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ کے رہائشیوں میں امداد کی براہِ راست تقسیم کے لیے پیش کی گئی اسرائیلی منصوبہ بندی کی حمایت کرے۔
ادھراسرائیلی فورسز کی غزہ کے نہتے مسلمانوں پر وحشیانہ بمباری جاری ہے۔غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں میں46 فلسطینی شہید ہوگئے، جبالیہ کے اسکول پر حملے میں17 فلسطینی شہید ہوئے، المواصی میں قائم عارضی خیمہ بستی میں بھی تین فلسطینی شہید، متعدد زخمی ہوگئے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فورسز نے خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس پر بمباری کی، بمباری میں صحافی حسن سمیت دو افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔شہدا کی مجموعی تعداد 52 ہزار 908 ہوگئی، 1 لاکھ 19 ہزار 721 زخمی ہوچکے ہیں۔
ادھرفلسطین کی وزارت صحت نے جنوبی غزہ کے خان یونس شہر میں ناصر میڈیکل کمپلیکس پر قابض اسرائیل کے تازہ حملے کو ایک سنگین جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزارت نے منگل کی صبح جاری بیان میں کہا کہ اس بزدلانہ حملے کا ہدف زیرِ علاج مریض، زخمی اور طبی عملہ تھا، جنہیں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔
اس ظالمانہ بمباری میں ناصر ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کو تباہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم دو شہری شہید اور کئی زخمی ہو گئے۔ شہداء میں معروف فلسطینی صحافی حسن اصلح بھی شامل ہیں جو علاج کے لیے ہسپتال میں داخل تھے۔
وزارت صحت کے مطابق قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے ہسپتالوں پر بار بار حملے، زخمیوں کا پیچھا کرکے انہیں ان کے علاج کے دوران قتل کرنا اور طبی عملے کو نشانہ بنانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ فلسطینیوں کے صحت کے نظام کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ حملے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ زخمیوں اور مریضوں کے علاج کے بنیادی انسانی حق کو بھی پامال کرتے ہیں۔ ایسے اقدامات واضح کرتے ہیں کہ قابض فاشسٹ صہیونی ریاست دانستہ طور پر فلسطینیوں کو زندگی سے محروم کرنے پر کاربند ہے، حتیٰ کہ وہ ہسپتال کے بستر پر ہوں تب بھی انہیں نشانہ بنانے جیسے بزدلانہ حربے استعمال کررہی ہے۔
وزارت صحت نے عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ قابض اسرائیل کے ان جرائم کو روکا جا سکے اور ہسپتالوں، مریضوں اور طبی عملے کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں پانچ لاکھ افراد شدید فاقہ کشی کا شکار ہیں اور ستمبر کے آخر تک قحط پڑنے کا سنگین خطرہ موجود ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق عالمی سطح پر خوراک کی نگرانی کرنے والے ادارے نے رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ میں غذائی حالات اکتوبر 2023ء کے بعد سے شدید بگڑ چکے ہیں اور 2.1 ملین افراد جو تقریباً پورا غزہ ہے انتہائی شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 4 لاکھ 69 ہزار سے زائد افراد ایسے ہیں جو ”تباہ کن” سطح کی بھوک کا شکار ہیں جبکہ بچوں میں 71 ہزار سے زائد غذائی قلت کے کیسز متوقع ہیں جن میں 14 ہزار سے زائد کیسز شدید سطح کے ہوں گے۔
غزہ کو مارچ 2025ء سے اسرائیلی فوجی محاصرے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے امدادی سامان اور تجارتی اشیا کی ترسیل تقریباً بند ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ کی نائب ڈائریکٹر بیتھ بیچڈول کے مطابق مارچ سے جاری محاصرہ غزہ میں انسانی بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے اور صورتحال بہت خطرناک ہو چکی ہے۔
اسرائیل نے رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے قحط کے خطرے کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ امداد کی فراہمی کی کوشش کر رہا ہے جبکہ حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام بھی لگایا۔ دوسری جانب حماس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسرائیل پر غذا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ادھراسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل ایک وفد دوحہ روانہ کرے گا تا کہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز پر بات چیت کی جا سکے جس کا مقصد غزہ میں قید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے تک پہنچنا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ نیتن یاہو کی وِٹکوف اور اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ مذاکرات اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کے بغیر ہوں گے۔
دریں اثناء اسلامی تحریک مزاحمت ”حماس” نے واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ امریکی نژاد اسرائیلی فوجی عیدان الیگزینڈر کی رہائی قابض اسرائیلی جارحیت یا فوجی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سنجیدہ سفارتی روابط اور ثالثی کی کوششوں کا ثمر ہے۔
حماس نے منگل کے روز جاری کیے گئے مختصر مگر اہم بیان میں کہا ہے کہ بنجمن نیتن یاھو اپنی قوم کو دھوکہ دے رہا ہے۔ وہ حملوں کے ذریعے قیدیوں کو واپس لانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ عیدان الیگزینڈر کی واپسی اس امر کی تصدیق ہے کہ قیدیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ بامقصد مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے کی سنجیدہ کوششیں ہیں۔
علاوہ ازیں قابض اسرائیل کے 550 سے زائد سابق اعلیٰ سیکورٹی افسران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ زدہ غزہ میں خونریزی رکوانے کے لیے فوری کردار ادا کریں اور حماس کے قبضے میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی رہائی یقینی بنائیں۔
اسرائیلی ویب سائٹ ”کلاش رپورٹ” کے مطابق ان درجنوں سابق فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے مشترکہ طور پر ٹرمپ کو خط ارسال کیا جس میں جنگ بندی کے لیے فوری مداخلت اور قیدیوں کی بازیابی کے لیے مؤثر قدم اٹھانے کی اپیل کی گئی ہے۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے کی خبریں گرم ہیں اور سابق اسرائیلی اہلکار چاہتے ہیں کہ وہ اس موقع کو غزہ میں جاری تباہ کن جنگ کو روکنے کے لیے استعمال کریں۔
اسرائیلی فوج کے سابق آپریشنز چیف یسرائیل زیف نے اس تناظر میں انکشاف کیا کہ بنجمن نیتن یاھو نے جنگ رکوانے کے لیے قطر کو مذاکراتی پیغام بھجوانے کا فیصلہ صرف اس وقت کیا جب اسے اندازہ ہوا کہ ٹرمپ اس جنگ کو ختم کرانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔زیف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”یہ انتہائی شرمناک ہے کہ اسرائیلی حکومت اور اس کا وزیراعظم قیدیوں کی زندگیوں کے لیے سنجیدہ نہیں”۔