رفح،خان یونس میں مجاہدین کے گھات حملے،متعددصہیونی فوجی ہلاک و زخمی

غزہ/واشنگٹن/لندن/بیروت:اسلامی تحریک مزاحمت ”حماس” کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک صہیونی پیادہ دستے کو گھات لگا کر نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 10 صہیونی فوجی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ یہ کارروائی ”ابواب الجحیم” (دوزخ کے دروازے) کے عنوان سے جاری آپریشنز کا حصہ ہے۔

فوجی بیان میں القسام بریگیڈز نے بتایا کہ ان کے مجاہدین نے رفح کے مشرقی علاقے میں المشروع چوک کے قریب ایک صہیونی دستے کو جس میں 10 فوجی اور دو فوجی کتے شامل تھے پہلے سے تیار شدہ گھات میں لا کر داخل کیا جیسے ہی دشمن کے اہلکار نشانے پر آئے مجاہدین نے کئی بارودی سرنگیں دھماکے سے اڑا دیں جس سے دشمن کے فوجی موقع پر ہی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔

القسام نے مزید بتایا کہ ان کے مجاہدین نے جائے وقوعہ پر اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کی لینڈنگ نوٹ کی جو زخمیوں کو اٹھانے کے لیے بھیجے گئے تھے جبکہ جھڑپیں تاحال جاری ہیں۔اسی سلسلے میں بدھ کے روز القسام بریگیڈز نے ایک اور حملے میں اعلان کیا کہ انہوں نے مشرقی خان یونس کے علاقے الفراحین میں ایک صہیونی فوجی گاڑیوں کے دستے کو پہلے سے نصب بارودی سرنگوں کے ذریعے نشانہ بنایا جس میں متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔

فوجی بیان میں مزید کہا گیا کہ القسام کے مجاہدین نے دھماکوں کے بعد دشمن پر مارٹر گولے بھی داغے اور ایک تباہ شدہ صہیونی گاڑی کو پیچھے ہٹاتے ہوئے دیکھا جبکہ ہیلی کاپٹرز ایک بار پھر زخمیوں کی منتقلی کے لیے علاقے میں اترے۔

ادھرغزہ پر قابض اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی 579 ویں روز میں داخل ہو چکی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی دستبرداری کے بعد جسے امریکا کی سیاسی و عسکری حمایت حاصل ہے اسرائیلی حملوں میں مزید شدت آئی ہے جبکہ عالمی برادری کی خاموشی بدترین غفلت کی تصویر پیش کر رہی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگاروں کے مطابق بدھ کو قابض اسرائیل نے غزہ کے مختلف علاقوں پر کئی فضائی حملے کیے جبکہ مارچ سے بنیادی خوراک کی ترسیل بند ہونے کے باعث علاقے میں قحط جیسے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔

طبی ذرائع نے تصدیق کی کہ بدھ کی صبح سے غزہ پر قابض اسرائیل کے مسلسل فضائی حملوں میں اب تک 67 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جب کہ درجنوں زخمی حالت میں مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔شام کے وقت قابض اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے جنوب میں تل الہوی محلے کو نشانہ بنایا جس میں ایک شہری جام شہادت نوش کر گیا۔

ایک اور دل دہلا دینے والے قتل عام میں قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کے الرمال محلے میں قائم تھائی ریسٹورنٹ کو بمباری کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 67 شہری شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے۔عینی شاہدین کے مطابق جب شہری بمباری سے بچنے کے لیے ریسٹورنٹ سے نکل کر بھاگنے لگے تو اسرائیلی طیاروں نے انہیں قریب کی سڑک پر نشانہ بنایا جس سے جانی نقصان میں مزید اضافہ ہوا۔

مقامی ذرائع نے بتایا کہ شہید ہونے والوں میں معروف صحافی یحییٰ صبیح بھی شامل ہیں۔دوپہر کو اسرائیلی حملے میں خان یونس کے مشرقی علاقے عبسان جدیدہ میں نوجوان جِہاد محمود عصفور بھی شہید ہو گیا جب وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھا۔

قابض اسرائیلی طیاروں نے رفح کے شمال مشرق میں صوفا چوراہے کے قریب ایک زرعی زمین پر دو فضائی حملے کیے جن سے وسیع تباہی ہوئی۔بیت لاہیا کے مغرب میں امریکی اسکول کے قریب اسرائیلی حملے کے نتیجے میں دو بچے شہید اور متعدد شدید زخمی ہو گئے۔

طبی ٹیموں نے بچوں کی لاشیں ملبے سے نکالیں۔خاندانی ذرائع کے مطابق محمد اسماعیل السطل جنہیں ایک سال قبل خان یونس کے میرکاتو چلے سے گرفتار کیا گیا تھا، قابض اسرائیل کی جیل میں شہید ہو گئے۔ ان کی عمر 46 برس تھی۔

صبح قابض فوج نے مشرقی غزہ کے تفاح محلے میں واقع شہید شدہ کرامہ اسکول پر دوبارہ بمباری کی، جہاں مقامی شہری لاشیں نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حملے میں مزید 7 افراد شہید ہو گئے، یوں فجر سے اب تک اس اسکول میں شہداء کی تعداد 16 اور زخمیوں کی تعداد 25 ہو گئی۔

اسی حملے کے دوران صحافی نورالدین مطر عبد بھی جام شہادت نوش کر گئے، وہ ”الشرق نیوز” اور ”ریڈیو الری” کے نمائندہ تھے، اور وہ کرامہ اسکول میں پیش آنے والی مجزرة کی کوریج کر رہے تھے۔حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق قابض اسرائیل کی جانب سے دو ہولناک حملوں میں مجموعی طور پر 33 فلسطینی شہید اور 73 زخمی ہوئے۔

ان میں سے ایک حملہ البریج کیمپ میں واقع ابوہمسہ اسکول پر کیا گیا، جو ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کا واحد ٹھکانہ تھا۔شجاعیہ کے علاقے میں جمعہ بازار کے قریب ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک خاتون شہید ہو گئی۔اسی طرح مشرقی خان یونس کے وادی صابر علاقے میں چند روز قبل ایک خیمے پر بمباری میں زخمی ہونے والا بچہ، کنان محمد سمیر قدیح، آج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

ادھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں قید اسرائیلی قیدیوں میں سے تین قیدی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 21 دیگر اب بھی زندہ ہیں۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ 59 افراد میں سے جنہیں قیدی بنایا گیا تھا 21 اب بھی زندہ ہیں جبکہ تین کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

رپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہم زیادہ سے زیادہ اسرائیلی قیدیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک ہولناک صورت حال ہے۔دریں اثناء برطانیہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے غزہ کو ضم کرنے یا اس کی جغرافیائی ساخت بدلنے کی کوئی کوشش کی تو یہ اقدام ناقابل قبول سمجھا جائے گا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق برطانوی وزیر مملکت برائے خارجہ امور ہیمش فالکونر نے برطانوی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم اسرائیل کی کارروائیوں کے دائرے کو وسعت دینے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔

غزہ کی زمین پر قبضے کی کسی بھی کوشش کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی علاقے کا کوئی بھی حصہ کاٹنا، اس پر نئی حدود مسلط کرنا یا آبادی کا جبری انخلا قابل مذمت ہوگا۔علاوہ ازیںامریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی امور کیلئے قائم دفتر کو مکمل طور پر امریکی سفارتخانے میں ضم کر دیا گیا ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق یہ فیصلہ بہ ظاہر ایک انتظامی اقدام ہے، تاہم اس کے سیاسی اثرات اور اس سے اسرائیل کی حمایت واضح دکھائی دیتی ہے۔محکمہ خارجہ کی ترجمان تامی بروس نے تصدیق کی کہ وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے فلسطینی امور کے دفتر کی تمام ذمہ داریاں سفارتخانے کے دیگر شعبوں کے ساتھ یکجا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام محض تنظیم نو کا حصہ ہے اور اس سے فلسطینیوں سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پچھلی حکومت کے دوران امریکا نے نہ صرف اسرائیل سے اپنا سفارتخانہ القدس منتقل کیا تھا بلکہ اسی دوران فلسطینی امور کے علیحدہ دفتر کو بند کر دیا گیا تھا جو ایک عملی قونصل خانے کا کردار ادا کرتا تھا۔

بعد ازاں سابق وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قونصل خانہ دوبارہ کھولنے کی کوشش کی مگر اسرائیلی اعتراض کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں امریکانے فلسطینی امور کا دفتر سفارتخانے کے احاطے میں تو قائم رکھا مگر اسے واشنگٹن میں الگ رپورٹنگ کا اختیار حاصل تھا۔

ایک اسرائیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ پر جاری نسل کشی کے دوران جو بم برسائے ان میں سے تقریباً 3 ہزار بم پھٹنے میں ناکام رہے۔رپورٹ کے مطابق بعض مواقع پر یہ تعداد استعمال شدہ کل گولہ بارود کا 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

مقامی اور بین الاقوامی ادارے کئی بار خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ کے مختلف علاقوں میں یہ غیر فعال بم جو اسرائیلی بمباری کے دوران پھٹ نہ سکے، شہری آبادی کے لیے مسلسل موت کا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اسرائیلی اخبار”ہارٹز” کے معاشی ضمیمہ ”دی مارکر” نے انکشاف کیا ہے کہ قابض فوج کی اندرونی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ جن دھماکوں نے اسرائیلی ٹینکوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا ان میں سے کئی دراصل وہی اسرائیلی فضائی بم تھے جو پہلے حملوں میں پھٹ نہ سکے اور جنہیں القسام بریگیڈ نے دوبارہ قابلِ استعمال بنا لیا۔

رپورٹ کے مطابق 2024ء کے اختتام تک قابض اسرائیلی فضائیہ غزہ پر 40 ہزار سے زائد فضائی حملے کر چکی تھی۔2025ء کے آغاز تک اسرائیلی فضائیہ کو اچھی طرح علم تھا کہ تقریباً 3 ہزار فضائی بم پھٹنے میں ناکام رہے ہیں۔

ہر ایک ٹن وزنی بم کی قیمت 20 سے 30 ہزار ڈالر کے درمیان بتائی گئی ہے جو قابض اسرائیل نے غزہ پر برسائے۔اسرائیلی ویب سائٹ کے مطابق ان غیر فعال بموں کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے نادانستہ طور پر حماس کو ہزاروں ٹن دھماکا خیز مواد منتقل کر دیا، جن کی مالیت کئی کروڑ ڈالر بنتی ہے اور یہ سب کچھ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ہوا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہتھیاروں کی شدید قلت کا سامنا کرنے والی حماس کے لیے یہ مواد نعمت ثابت ہوا ہے جس کی مدد سے وہ ہزاروں بارودی سرنگیں اور دھماکا خیز آلات تیار کر رہی ہے۔یہ بم اب اسرائیلی فوج کے لیے بھی بڑا خطرہ بن چکے ہیں جن سے غزہ میں کئی فوجی مارے جا چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کی منظوری کے بعد یہ خطرہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔ ایک سیکورٹی ذرائع نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر بم نہ پھٹنے کی وجہ تکنیکی خرابی ہے۔قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر گرائے گئے لاکھوں بموں نے اس کے فیوز کے ذخائر کو ختم کر دیا ہے،یعنی وہ آلہ جو بم میں دھماکا کرتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فیوز بنانے والی کمپنی ”آریٹ” کے حصص کی قیمت میں جنگ کے آغاز سے اب تک 2000 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جو صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔فیوز کی قلت کے باعث قابض اسرائیل نے پرانے، غیر معیاری فیوز استعمال کرنا شروع کر دیے جن میں بعض امریکا سے فراہم کیے گئے اور کئی دہائیاں پرانے ہیں۔

نتیجتاً پہلے بم نہ پھٹنے کی شرح 2 فیصد تھی جو اب بعض بموں میں 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ القسام بریگیڈ کے لیے ان غیر فعال بموں کو دوبارہ قابل استعمال بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ کئی بار وہ بم کو کاٹ کر اس میں سے دھماکا خیز مواد نکالتے ہیں اور دھات کے بڑے ڈبوں میں محفوظ کر کے انہیں بطور بارودی سرنگ استعمال کرتے ہیں۔

کبھی کبھار وہ ان بموں کو جوں کا توں رکھتے ہیں اور ایک دھاتی تار سے جوڑ کر دھماکے کے قابل بنا لیتے ہیں۔جب دی مارکر نے قابض فوج سے اس پر ردِعمل لیا تو ترجمان نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں پھینکے گئے دسیوں ہزار گولہ بارود میں سے صرف ”چند” بم اپنے ہدف پر مکمل طور پر نہیں پھٹے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ فوج غیر فعال بموں کی شناخت کر کے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ قابض اسرائیل کے پھینکے گئے یہ غیر فعال بم اب بھی غزہ کے عام شہریوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان بموں کی وجہ سے اب تک کئی جانیں جا چکی ہیں متعدد افراد ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکے ہیں اور مقامی آبادی کے پاس ان خطرات سے نمٹنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی نگران کایا کالاس نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال مزید اس نہج پر نہیں چل سکتی، اسے فوری طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔انہوں نے یہ بات قابض اسرائیل کے وزیر خارجہ گدعون ساعر سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہی جہاں انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں انسانی امداد کا فوری بحال ہونا نہایت ضروری ہے اور اس عمل کو ہرگز سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔

اقوامِ متحدہ اور فلسطینی نمائندہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں قابض اسرائیل پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ انسانی امداد کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور دانستہ طور پر غزہ میں امداد کے داخلے کو روکے ہوئے ہے جو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مکمل قبضے کی منصوبہ بندی کے اعلان کے بعد حماس نے بیان دیا ہے کہ اسرائیلی بھوک کی جنگ کے سائے میں جنگ بندی کے کسی بھی مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔اسرائیلی فوج پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ اس کی توسیعی مہم کی منظوری دی جا چکی ہے جس کا مقصد تباہ حال غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور اس کے بیشتر شہریوں کو جبراً بے دخل کرنا ہے۔

اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈزنے اعلان کیا ہے کہ تنظیم کے فیلڈ کمانڈر خالد احمد الاحمد بدھ کی صبح قابض اسرائیل کی جانب سے لبنان میں کیے گئے ایک قاتلانہ حملے میں شہید ہو گئے۔

کتائب القسام نے اپنے بیان میں کہا کہ اللہ کی نصرت پر یقین اور باایمان سپاہیوں کی عزت کے ساتھ ہم اپنے عظیم مجاہد، میدانِ جہاد کے جانباز، القسام کمانڈر خالد احمد الاحمد المعروف ابو ابراہیم کی شہادت کا اعلان کرتے ہیں۔ شہید کمانڈر کا تعلق مقبوضہ فلسطین کے علاقے نحف ضلع عکا سے تھا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ خالد الاحمد نے اپنی جان معرکہ طوفان الاقصیٰ میں دی، جب قابض اسرائیل کے ڈرون نے جنوبی لبنان کے شہر صیدا میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔القسام نے بتایا کہ الاحمد کی جدوجہد اور دشمن صہیونی ریاست کے خلاف ان کے اقدامات جدوجہدِ مزاحمت کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔

وہ اپنے دیگر شہید ساتھیوں کے قافلے میں شامل ہو کر اللہ کے حضور پہنچے۔ یہ معرکہ طوفان الاقصیٰ فلسطینی عوام اور اہلِ غزہ کے دفاع کے لیے جاری ہے۔القسام بریگیڈزنے اپنے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ اللہ، اپنے عوام اور امت کے ساتھ کیے گئے وعدے پر قائم ہیں۔

مزاحمت و جہاد کا وہی پاک راستہ اپنائے رکھیں گے جسے شہداء نے اپنے خون سے سینچا، یہاں تک کہ فلسطینی قوم کی آزادی اور واپسی کا خواب حقیقت بن جائے۔