دنیا تیزی سے دو قطبوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی، سیاسی اور عسکری کشمکش اب اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ غیر جانب داری کا تصور تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے اب فیصلہ کن وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو مرتب کرے اور ایک واضح، دو ٹوک اور طویل المدتی حکمت عملی اختیار کرے۔
کشمیر، ہندوستان، افغانستان اور فلسطین جیسے حساس مسائل کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کے مستقبل کی راہ متعین کرے گی۔ اس وقت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے ہندوستان کو اپنا اسٹریٹجک شراکت دار منتخب کر لیا ہے۔ اب یہ فیصلہ پاکستان کی مرضی کا نہیں رہا کہ وہ دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ بیک وقت تعلقات رکھے۔ دنیا کی دونوں بڑی طاقتیں صاف الفاظ میں کہہ چکی ہیں: یا ہمارے ساتھ آؤ یا اْن کے ساتھ۔ اب غیر جانبداری یا متوازن تعلقات کی پالیسی ایک خام خیالی بن چکی ہے۔ یہ کشمکش صرف معاشی نہیں، اسٹریٹجک بھی ہے۔ امریکا اپنی تجارتی پالیسی کے ذریعے دنیا کو اپنی لابی میں شامل کر رہا ہے، جبکہ چین Belt and Road Initiative کے ذریعے ممالک کو جوڑنے کی کوشش میں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں بدمست ہاتھیوں کی جنگ میں چھوٹے ممالک بالخصوص پاکستان جیسے قرضوں میں جکڑے، معاشی طور پر کمزور، اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ممالک بری طرح پس رہے ہیں اور ان دونوں کیلئے دونوں سے وابستہ اپنی مجبوریوں کے باعث کسی ایک طرف ہونے کا اقدام کچھ آسان نہیں ہے۔
امریکا ایک طرف اسرائیل کی مکمل حمایت کر رہا ہے، تو دوسری طرف پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ایران اور اسرائیل کے معاملے پر واضح موقف اختیار کریں۔ اب اسرائیل کے تئیں واضح موقف اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی حمایت کی جائے، اس غاصب اور قابض کو ایک جائز اور قانونی ملک کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ ادھر امریکی صدر کی طرف سے چھیڑی جانے والی ٹیرف کی جنگ میں بھی پاکستان جیسے ممالک کے پس جانے کا خطرہ ہے۔ ایک جانب امریکا ہے جو ہمارا بازو مروڑنے کی کوشش میں ہے تو دوسری جانب چین امریکا کو جواب دینے کے لیے دوست ممالک سے تعاون کا خواہاں ہے۔ چین نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ خوشامد سے امن نہیں آتا۔ چین کی وزارت تجارت کے ترجمان کے مطابق انصاف اور عالمی قوانین کی حمایت ہی پائیدار حل کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ اس بیان کا مطلب بالکل واضح ہے کہ جو ممالک ٹیرف میں رعایت کے لیے امریکا کی خوشامد کر رہے ہیں، چین ان سے خوش نہیں ہے۔ ہمارے لیے چین کا پیغام یہی ہوگا کہ ہم امریکا کی بجائے اس کا ساتھ دیں۔ چین کے ساتھ تعلقات کو ہم عشروں سے آہنی بھائی چارہ قرار دیتے آئے ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں اس دوستی کے خول میں بھی دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ چین نے پاکستان میں سی پیک کا سب سے بڑا منصوبہ ایم ایل ون شروع کیوں نہیں کیا؟ کئی سالوں کی بات چیت اور وعدوں کے باوجود، محفوظ علاقوں میں ہونے والا یہ منصوبہ تعطل کا شکار کیوں ہوا؟ کیا اس کی تاخیر چینی اعتماد میں کمی کی علامت نہیں؟ اب اگر ہم نے ٹیرف کی جنگ میں چین کا ساتھ نہیں دیا تو چین کے اعتماد میں مزید کمی آسکتی ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران سی پیک کے متعلق عالمی تھنک ٹینکس، بالخصوص امریکی ادارے شکوک و شبہات پھیلارہے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سینٹر میں ایک تقریب کے دوران ایلس ویلز نے کہا تھا کہ چین دنیا کا سب سے بڑا قرض دہندہ بن چکا ہے، مگر اپنے معاہدوں کی تفصیلات چھپاتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی عوام کو حق ہے کہ وہ سی پیک کی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھائیں اور اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ پاکستان کو ملک میں چینی سرمایہ کاری پر اٹھنے والے سوالات کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے، یہ دیکھا جانا چاہیے کہ سی پیک منصوبوں سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوا ہے، گوادر ائیر پورٹ چین کا دینے کے فیصلے پر بھی گفتگو کی گنجائش ہے تاہم پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی سمت بہر حال درست رکھنا ہوگی۔ ہمیں امریکا اور چین میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ڈانواڈول پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان آج عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ وسط ایشیا سے روس تک تمام ممالک کنیکٹویٹی اور علاقائی تعاون پر کام کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان آج بھی آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم معاشی خودمختاری حاصل نہیں کر سکے۔ افغانستان کی بدلتی صورتحال، ایران سعودیہ مصالحت، چین روس اتحاد، ان تمام عوامل نے عالمی سیاست کا نیا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان اگر واضح سمت اختیار نہ کرے تو اس کا نقصان ناقابل تلافی ہوگا۔ تاپی گیس پائپ لائن، ریلویے کنکشن اور علاقائی روابط جیسے منصوبے صرف کانفرنسوں میں بیان دینے سے نہیں بنیں گے بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہوں گے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا مکمل ازسرِنو جائزہ لینا ہوگا۔ سفارت خانوں کو صرف تقریبات کے لیے استعمال کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ یومِ آزادی، یومِ کشمیر، یا دیگر تقریبات میں ہوٹلوں میں موسیقی اور کھانوں سے سب اچھا ہے کی رپورٹ بھیجنے کا وقت گزر چکا۔ اب وقت ہے کہ پاکستانی سفارت کار عالمی سطح پر مضبوط معاشی، تجارتی اور دفاعی معاہدے کریںاور دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان محض ایک تماشائی نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ، خودمختار اور قابلِ بھروسہ ریاست ہے۔