عاجزی کا نقاب اوڑھے غرور کا چہرہ اور اصل تواضع

اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم صفت المتکبِر ہے۔ (سورۂ حشر 23) کیونکہ: آسمانوں اور زمین میں کبریائی صرف اسی کے لیے ہے۔ (الجاثیہ: 37) مفسرین کے مطابق یہاں کبریائی سے مراد عظمت، بلندی اور مکمل اختیار ہے۔ علامہ سمعانی لکھتے ہیں: المتکبروہ ہے جو اپنی ذات میں بلند ہو اور اپنی عظمت کا اظہار کرے۔ یہ صفت اللہ کے لیے تو لائقِ تحسین ہے لیکن بندے کے لیے باعثِ مذمت ہے کیونکہ کوئی بھی مخلوق نقص سے پاک نہیں ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اللہ کا تکبر کمال کی انتہا ہے اور انسان کا تکبر زوال کا نقطہ آغاز۔ تکبر ایک باطنی صفت ہے جس کے آثار بعض اوقات انسان کے ظاہر اعضا اور حرکات پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ خصلت انسان کو اپنی بڑائی کا احساس دلاتی ہے اور دوسروں پر برتری جتانے کا باعث بنتی ہے۔ تکبر اور خودپسندی (عُجب) میں فرق یہ ہے کہ عجب صرف اپنے نفس سے متعلق ہوتا ہے، یعنی انسان خود کو بڑا سمجھتا ہے مگر دوسروں کو حقیر نہیں سمجھتا، جبکہ تکبر میں دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے اور ان پر فوقیت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تکبر کی بدترین قسم وہ ہے جو انسان کو علم حاصل کرنے، حق قبول کرنے اور اس کے آگے جھکنے سے روکتی ہے۔ متکبر انسان بسا اوقات حق کو جان لیتا ہے، لیکن اس کا نفس اسے اس کے سامنے جھکنے نہیں دیتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں فرمایا: اور انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے انکار کیا، حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے۔ (النمل: 14)

یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم ربی سے انحراف کیا تھا۔ حضرت سفیان بن عیینہ کا قول ہے: جس کی نافرمانی خواہش نفس کی بنیاد پر ہو، اس کے لیے توبہ کی امید ہے کیونکہ آدم علیہ السلام سے خواہش کی بنیاد پر چوک ہوئی تھی، تو اللہ نے ان کی مغفرت فرما دی اور جس کی نافرمانی تکبر کی بنیاد پر ہو تو اس کے بارے میں لعنت کا اندیشہ ہے کیونکہ ابلیس نے تکبر کے سبب نافرمانی کی تھی، تو وہ ملعون قرار پایا۔ (سیر اعلام النبلائ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کی جامع تعریف یوں فرمائی ہے: تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔ (صحیح مسلم) غرور کی ایک اور قسم ایسی ہے جو نہ صرف سمجھنے میں مشکل ہے بلکہ پہچاننے میں بھی اکثر دھوکا دے جاتی ہے۔ عام غرور تو وہ ہے جو انسان کے انداز، گفتگو، لباس اور چال ڈھال سے جھلکتا ہے، لیکن یہ قسم بظاہر تو انکساری لگتی ہے مگر اصل میں وہ ہے غرور کی ایک مہذب اور مکارانہ شکل۔ اسے ہم غرورِ معکوس بھی کہہ سکتے ہیں۔ غرورِ معکوس وہ طرزِ عمل ہے جس میں انسان عام مغروروں کے برعکس ظاہری سادگی اپناتا ہے، مگر اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی تواضع کی تعریف کریں مثلاً اگر کوئی ارب پتی شخص سادہ سی کار میں سفر کرے، عام گھڑی اور چپل پہنے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہو بظاہر سادگی، مگر حقیقت میں غرور کا ایک نیا روپ اپنا رہا ہو۔ یہ وہی طرزِ عمل ہے جب کوئی کہتا ہے: یہ میری حقیر رائے ہے یا یہ معمولی سی تحریر ہے، لیکن اندر سے وہ چاہتا ہے کہ سننے والا فوراً کہے نہیں جناب آپ کی بات تو نہایت اعلیٰ ہے۔

یہ تعریف کی طلب ایک ایسا فریب ہے جسے تواضع کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس رویے کا رواج خاص طور پر دانشور طبقے اور اہلِ علم میں بڑھ رہا ہے۔ دوران مطالعہ کہیں پڑھا تھا کہ ایک عالم سے کسی نے کہا: یہ میرا ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے، قبول کریں تو انہوں نے برجستہ جواب دیا: معاف کیجیے، میں چھوٹے کتابچے نہیں پڑھتا، صرف بڑی اور وزنی کتابیں پڑھتا ہوں۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص ابو سعید مہلب بن ابی صفر کے پاس آیا اور بولا: مجھے آپ سے ایک حویجہ یعنی ایک چھوٹی سی حاجت درکار ہے۔ مہلب نے فوراً جواب دیا: تو اس کے لیے پھر تم کسی رُجیل یعنی چھوٹے آدمی کے پاس جاؤ۔ المہلب بن ابی صفر کوئی معمولی شخص نہیں تھے بلکہ اُموی دور کے ایک عظیم گورنر اور ماوراء النہر کے وسیع علاقوں کے مشہور فاتح گزرے ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ان جیسی شخصیات سے بڑے بڑے کام کروائے جاتے ہیں، چھوٹے موٹے کام تو معمولی لوگ بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی حاجت، حاجت ہی ہوتی ہے اسے چھوٹا کہہ کر حاجت روا کو چھوٹا بنانے کی کیا ضرورت ہے۔

اعمال کا دار ومدار چونکہ نیتوں پر ہوتا ہے، اس لیے اس قسم کے رویوں سے ہر ایک کا مقصد ایک جیسا نہیں ہوتا۔ سو یہ اس لیے نہیں عرض کیا کہ ہم دوسروں کی نیت پر شک کریں بلکہ خود احتسابی کے لیے عرض کیا کہ خود ہم اپنے رویوں پر غور کریں کہ کہیں ہم بھی تواضع کے لبادے میں تعریفوں کی خواہش لیے تو نہیں پھر رہے ہیں؟ اگر غرور کھلا ہو تو آدمی سنبھل سکتا ہے، مگر جب وہ عاجزی کے خول میں ہو تو زیادہ خطرناک، مکروہ اور دھوکا دہ بن جاتا ہے۔ تکبر کی جملہ اقسام کے برعکس حقیقی تواضع کو اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی شان تواضع ہی ہونی چاہیے۔ ایسی عاجزی اور نرم مزاج جو ذلت بھی نہ ہو اور کمزوری یا بے وقعتی بھی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات میں فرمایا ہے کہ وہ زمین پر نرمی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں، وہ نہ متکبر ہوتے ہیں اور نہ بے جا فخر کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم سب عاجزی اختیار کرو، یہاں تک کہ نہ کوئی کسی پر فخر کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرے۔

عاجزی اور انکساری میں ہمارے لیے سب سے عظیم نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ آپ سب سے معزز اور اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو سلام کرتے، ایک غلام بھی اگر کسی ضرورت کے لیے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہیں لے جانا چاہتا تو آپ اس کے ساتھ چلے جاتے۔ گھر میں اپنے اہلِ خانہ کی خدمت کرتے، کبھی اپنی ذات کے لیے بدلہ نہیں لیتے، اپنے جوتے خود مرمت کرتے، کپڑے خود سی لیتے، اپنے گھر کے لیے بکری کا دودھ دوہتے، اونٹ کو چارہ دیتے، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، فقیروں کے ساتھ بیٹھتے، بیوہ اور یتیم کے کام کے لیے چل پڑتے، جس سے بھی ملاقات ہوتی، سلام میں پہل کرتے، اگر کوئی معمولی چیز کے لیے بھی بلاتا تو دعوت قبول کر لیتے، نرم مزاج، خوش اخلاق، کشادہ چہرہ اور عاجز تھے مگر عزت دار۔ مومنوں کے لیے جھکے ہوئے اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے والے۔ آپ نے فرمایا: جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے۔ (ترمذی) اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی تواضع نصیب فرمائے اور غرور و تکبر سے محفوظ رکھے۔