پرانی باتیں کھود کھود کر نکالنا، پھر انہی میں غور و خوض کرنا دانشمندی کے خلاف ہے۔ بعض اوقات اپنوں کی کچھ باتیں کڑوی ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ پرانی ہوچکی ہوتی ہیں، یہاں تک کہ ان کا زبان پر لانا بھی مناسب نہیں لگتا۔ ایسی باتوں کو یاد کرکے دل بوجھل ہوجاتا ہے، خون کھولنے لگتا ہے۔ ان باتوں کو بار بار دُہرا کر دبے ہوئے جذبات کو دوبارہ زندہ کرنا اور اُن پر اصرار کرنا نہ صرف غیرسنجیدہ عمل ہے بلکہ عقل مندی کے بھی خلاف ہے۔
میں نے اپنے بڑوں کو اکثر دیکھا ہے کہ جب دورانِ سبق ماضی کے گزرے ہوئے فرقوںجہمیہ، قدریہ، معتزلہ اور خوارج کا ذکر آتا تو وہ کہہ دیتے: ’یہ فرقے تھے، اب ختم ہو چکے، ان پر بحث کرنا فضول ہے‘ اور اگلی بات شروع کردیتے۔ صرف بنیادی تعارف کرا دیتے بس۔ وہ ان موضوعات میں الجھ کر وقت ضائع نہ کرتے۔ ہمیں بھی اپنے بڑوں کے اس طرزِ عمل کو اپنانا چاہیے۔
شریعتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلاة و السلام بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی اور چچا کے قاتل تک کو معاف کردیا تھا۔ آپ کی جان کے دشمن بھی جب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے تو آپ نے تمام اختلافات کو بھلا کر انہیں سینے سے لگالیا۔ اس سے ہمیں سیکھنا چاہیے کہ پرانی رنجشوں میں الجھ کر موجودہ محبتوں کو ملیا میٹ کرنا دانشمندی نہیں۔ دیکھیں! دنیا نفرت، خونریزی اور دشمنی کے تعفن سے بیزار ہوچکی ہے۔ اب ہر شخص محبت کی تلاش میں ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اُسے کوئی مخلص دوست، ہمدرد ساتھی یا وفادار رشتے دار مل جائے تاکہ زندگی پُرسکون ہوسکے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ ہم اپنے دلوں سے نفرت کی آگ نکال دیں اور انہیں محبت کی خوشبو سے معطر کریں۔ ہمیں اپنے پرائے سبھی کو محبت کی چاشنی سے نوازنا چاہیے۔ آپ کے بہن بھائی، دوست احباب، والدین اور دیگر رشتے دار آپ کی محبت کے منتظر ہیں۔ وہ آپ کی راہ تک رہے ہیں۔ انہیں محبت دیں اور یقین کریں یہ محبت دینا کوئی مشکل کام نہیں۔ بس ہلکی سی مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کافی ہے کہ آپ اپنوں کے دل جیت سکیں۔
جب آپ اپنوں سے خندہ پیشانی اور مسکرا کر ملیں گے، اُن کے اور اُن کے گھربار کے حال احوال پوچھیں گے تو وہ ضرور آپ کی اس محبت اور الفت کے قدردان ہوں گے اور کیوں نہ ہوں؟ انہیں اس نفرت بھرے ماحول میں محبت جیسی نعمت جو ملی ہے، وہ بھی ایک اپنے سے! آپ بھی ان کی محبت کی چاشنی محسوس کریں گے۔ لہٰذا از راہِ کرم پرانی باتوں کو بھول کر انہیں دفنا کر، رنجشیں دور کرکے محبت و الفت کے پھول بکھیریں۔ یہی ایک مسلمان کا طرہ امتیاز ہے۔ آپ کی اس محبت سے نہ صرف آپ سے متعلقہ کمیونٹی بلکہ پورا معاشرہ پُرسکون ہوگا۔ (سعید مسعود ساوند)
