اختلافِ رائے اور آج کا سیاسی کارکن

تحریر : عبدالصمد حق یار
سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کا اصل سرمایہ اور اُس کی فکری اساس کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہی کارکن جو بااخلاق، مہذب اور باشعور ہو۔ نہ صرف اپنی جماعت کی ساکھ کو بلند کرتا ہے بلکہ قومی سیاست کو بھی سنجیدگی، رواداری اور شائستگی کی راہوں پر گامزن کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
جس جماعت کے کارکن اخلاق، نظریے اور تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں وہی جماعت عوامی اعتماد کی مستحق بنتی ہے اور حقیقی معنوں میں ایک مستحکم اور موثر سیاسی قوت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج ہماری سیاسی فضا پر ایسی بے سمتی اور فکری آلودگی چھا چکی ہے جس میں سنجیدگی کی جگہ جذباتیت نے، دلیل کی جگہ تحقیر نے اور شائستگی کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے۔ اختلافِ رائے کو فکری تنوع کے بجائے ذاتی دشمنی سمجھا جانے لگا ہے اور سیاسی مباحث میں دلیل کی جگہ آواز کی بلندی کو کمال جانا جانے لگا ہے۔ ان حالات میں کارکنوں کی فکری نظریاتی اور اخلاقی تربیت محض ایک تقاضا نہیں بلکہ قومی سیاسی بقا کی ضمانت بن چکی ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایک تربیت یافتہ نظریاتی کارکن کسی جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے طرزِ گفتار، اندازِ برتاو اور اختلاف میں مہذب رویے کے ذریعے جماعت کے فکر و فلسفے کا عملی مظہر بن جاتا ہے۔
اس کی شخصیت میں موجود سنجیدگی، وقار اور شائستگی جماعت کے نظریاتی معیار کی عکاسی کرتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ آج کا سیاسی کارکن فکری اساس کا آئینہ دار کم اور تعصبات و جذباتیت کا اسیر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو نہ صرف اپنے کارکنوں کی فکری و اخلاقی تربیت سے مجرمانہ غفلت برت رہی ہیں بلکہ خود اُن کی قیادت بھی فکری پسماندگی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار نظر آتی ہے۔ آج سیاسی فضا میں جو زہر آلودگی پھیل رہی ہے اُس کے پسِ پردہ اکثر وہی کارکن ہیں جو نہ کسی تربیتی مرحلے سے گزرے اور نہ ہی سیاسی اخلاقیات سے واقف ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست محض الزام تراشی، بہتان بازی اور مخالفین کی تضحیک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جبکہ بدتمیزی کو سوشل ایکٹیوزم کا نام دے کر اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ یہ رجحانات نہ صرف معاشرتی بگاڑ کو جنم دے رہے ہیں بلکہ قومی‘ سیاسی سطح پر بے حسی، انتہاپسندی اور نفرت کی آبیاری بھی کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ان گستاخانہ رویوں کے ذمہ دار کون ہیں؟ کیا سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کی اخلاقی و فکری تربیت کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہیں یا محض عددی طاقت کو کامیابی کا پیمانہ سمجھتی ہیں؟ کیا قیادت اپنے طرزِ عمل سے کارکنوں کے لیے مثبت مثالیں قائم کررہی ہے یا خود بھی اس تنزلی کا حصہ بن چکی ہے؟ کیا سوشل میڈیا پر متحرک کارکنان کے لیے جماعتوں نے کوئی ضابطہ اخلاق وضع کیا ہے؟ کیا ہمارے تعلیمی، مذہبی اور سماجی ادارے سیاسی تربیت کے خلا کو پُر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ جب کارکن گالم گلوچ، تحقیر اور بہتان تراشی کرتے ہیں تو کیا قیادت اُن پر گرفت کرتی ہے یا خاموشی اختیار کرلیتی ہے؟ یہ چند حل طلب سوالات کسی ایک فرد کے نہیں بلکہ معاشرے کے ہر ذی شعور کی ذہن میں ہیں اور ہر باشعور انسان اس بات کا متقاضی ہے کہ سیاسی جماعتیں ان سوالات کی روشنی میں اپنے کارکنان کی اخلاقی، فکری اور نظریاتی تربیت کو اولین ترجیح دیں۔ بصورتِ دیگر سیاسی ماحول مزید زہریلا ہو جائے گا اور قومی سطح پر ہم آہنگی برداشت اور شائستگی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
مشاہدہ کیا جائے تو سوشل میڈیا کے وسیع اور بے لگام میدان میں یہ تربیت اور بھی ناگزیر ہوگئی ہے جہاں ایک ناپختہ جملہ یا غیرذمہ دار تبصرہ فرد کی نہیں بلکہ پوری جماعت کی ساکھ کو متاثر کر دیتا ہے۔ اس لیے ہر جماعت پر لازم ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کارکنوں کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کرے اور اس کی خلاف ورزی پر تادیبی کارروائی کو یقینی بنائے۔ اگر آج ان سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں کی فکری و اخلاقی تربیت کو سنجیدگی سے نہ لیا تو کل یہی جذباتی، ناپختہ اور غیرتربیت یافتہ عناصر اپنی ہی جماعت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہر جماعت اپنے کارکنوں کے لیے باقاعدہ تربیتی پروگرام تشکیل دے جن میں سیاسی شعور، اخلاقی اقدار اور نظریاتی وابستگی کو اجاگر کیا جائے۔ کارکنوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ اختلافِ رائے ایک فطری عمل ہے مگر اس کے اظہار کے لیے تہذیب شائستگی اور استدلال ناگزیر ہیں، نہ کہ طعن و تشنیع اور شخصیت پر حملے۔ سچ تو یہ ہے کہ اصل سیاسی کارکن وہی ہوتا ہے جو دلیل کی طاقت سے بات کرے، شائستگی سے قائل کرے اور اپنے کردار کی روشنی سے مخالف کو بھی احترام پر مجبور کر دے۔ یاد رکھیں جماعتوں کی اصل شناخت اُن کے منشور سے زیادہ ان کے کارکنوں کے طرزِ عمل سے ہوتی ہے۔ اگر کارکن مہذب، باکردار اور سیاسی روایات کے امین ہوں تو نہ صرف جماعت کا وقار بلند ہوتا ہے بلکہ ایک خوشگوار، متوازن اور ترقی پسند سیاسی فضا بھی تشکیل پاتی ہے جو قوم کی فکری اور سماجی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔