پاکستان کی افغان پالیسی میں شفٹ کیوں آیا؟

گزشتہ سے پیوستہ:
یہاں ایک اور نکتہ بھی بیان کرتا چلوں، اپنی جگہ یہ بھی دلچسپ بات ہے اور اگر اسے کلچرل حوالے سے دیکھا جائے، معروضی زمینی حقائق کے طور پر تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب نے برسبیل تذکرہ بتایا کہ جب پوست کی فصل تیار ہوجاتی ہے تو افغانستان کے مدارس میں ایک مہینے کیلئے چھٹی ہوجاتی ہے، طلبہ وہاں جا کر پوست کے ڈوڈے پر نیش لگاتے ہیں، یعنی ایسا کٹ جس سے اس کا شیرہ بہہ کر جمع کیا جا سکے۔ یہ طلبہ ایک مہینہ یہ کام کر کے اپنا سال بھر کا خرچہ پورا کر لیتے ہیں۔ منشیات کا یہ مال پھر کانوائے کی صورت میں اسمگل ہوتا ہے جن کے پاس جدید ترین ہتھیار ہوتے ہیں۔ یہ ایران کے راستے بھی اسمگل ہوتا ہے، پاکستان کے راستے بھی۔ ایران میں اس کی سزا پھانسی ہے اور اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ پاکستان میں قوانین اور ان پر عملدرآمد کمزور ہے تو یہ یہاں سے اسمگلنگ کی کوشش کرتے ہیں۔

اسمگلرز کی ایک قسم عام تجارت کا سامان اسمگل کرنے والے ہیں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر بھی بہت ساسامان منگوایا جاتا ہے جو دراصل پاکستان میں اسمگل ہوتا ہے۔ ایک اورفیکٹر پاکستان میں آزاد قبائلی علاقہ تھا جہاں پر بہت سی بیرونی مداخلت ہوتی ہے، اس لئے ہمارے اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ بہت ہوا، اب یہ سب ٹھیک کیا جائے، تب ہی فاٹا کا انضمام کے پی کے ساتھ ہوا تاکہ یہ سیف ہیون ختم کی جائے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب مختلف اعدادوشمار اور دلائل سے یہ بات کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہوا، معاشی نقصان اور جانی بھی۔ اس وقت پاکستان میں جہاں کہیں شورش اور عسکریت پسندی چل رہی ہے، ان سب کے پیچھے افغانستان ہے۔ یہ سب ایسی وجوہات تھیں جن کے باعث پاک افغان بارڈر کو کنٹرول کرنا لازمی ہوگیا تھا۔ بارڈر مینجمنٹ اور وہاں موجود باڑ کی یہ تمام مافیاز مخالفت کرتے ہیں، مگر پاکستان کی سالمیت، ہمارے نیوکلیئر پروگرام کی حفاظت اور ملک میں امن وامان کیلئے ہمیں کسی نہ کسی طرح پاک افغان بارڈرز کو مکمل بند رکھتے ہوئے آمدورفت کو ریگولیٹ کرنا ہوگا، یعنی مقررہ راستوں کے ذریعے ہی آنا جانا ہو۔ باڑ کو کاٹنے اور توڑپھوڑ کی بہت سی کوششیں کی گئیں۔ پاک فوج نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا مگر اب زیرو ٹالرنس ہے۔ اب یہ طے ہوچکا ہے آئندہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب کے بقول پاک افغان تعلقات میں شفٹ اسی وجہ سے آئی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ادارے اگر اپنے پاس موجود شواہد اور دلائل عوام کے سامنے رکھیں تو لوگ اسے سمجھ لیں گے۔ بات سادہ ہے۔ ایک ہمارا پڑوسی ملک ہے جو یہاں کے نوجوانوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے، وہاں سے ڈالر، اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ ہو رہی ہے، ہر قسم کے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی ہو رہی ہے، افغان میڈیا اور سوشل میڈیا پاکستان کے اتنا شدید مخالف ہے کہ انڈین میڈیا بھی اتنی مخالفت نہیں کرتا۔ کسی کو یہ علم ہی نہیں کہ پاکستان میں کتنے افغان لوگ ہیں۔ ہمارے ملک میں جنگ کی سی صورتحال ہے اور ہمارے اندر اتنی بڑی تعداد میں افغان حکومت کے آلہ کار موجود ہوں تو کیسی بڑی بحرانی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک بھی ہیں، کیا وہاں انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ؟

ابھی ایران نے تیرہ لاکھ افغانوں کو اپنے ملک سے نکالا ہے، مگر ان کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔ اس لئے بارڈر پر کنٹرول ہونا چاہیے۔ پاکستان میں جو افغان موجود ہیں، ان کا ہمیں علم ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ مسئلہ ان قبائل کا ہے جو سرحد کے دونوں اطراف میں رہتے ہیں، انہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے رجسٹرڈ کیا جائے، انہیں پرمٹ مل جائے اور وہ آتے جاتے رہیں۔ آخر میں مفتی عبدالرحیم صاحب نے افغان طالبان حکومت کو ایک مفت مشورہ دیا کہ پاکستان میں ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ایسے جو بااثر ہیں اور جو یہ معاملات اچھے طریقے سے سیٹل کرا سکتے ہیں۔ کاروباری لوگ بھی ہیں، ریٹائر حضرات بھی، علماء میں بھی ہیں۔

مفتی صاحب کے بقول مذہبی طبقات کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں جو بے اثراور بے بس ہوں، جبکہ وہ لوگ جو ان سے ہمدردی رکھتے ہوں اور جن کے اہم حلقوں میں روابط ہوں، ان پر مختلف الزامات لگا کر دور کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ لڑائی کی بجائے یہ معاملات آرام سے حل ہوسکتے ہیں۔ ٍاگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس کے ذمے دار خود افغان طالبان ہی ہیں۔