سالانہ ترسیلات زر اور ماہ بہ ماہ اضافہ

ترسیلاتِ زر کے ایک ایک ڈالر کا ملک میں آنا، پھر ماہ بہ ماہ بڑھتے چلے جانا اور سالہا سال سے بڑھتے رہنا، یہ ایک ایسا سہارا ہے جو ملک کی معیشت کو سنھبالا دیتا ہے، گاؤں کے کچے گھروں کو پختگی عطا کرتا ہے، چھوٹے مکان بڑے ہوتے ہیں، پھر بنگلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہ بنگلے حویلی بن جاتے ہیں ۔ کہیں بوڑھے والدین سالہا سال سے اس چھوٹے مکان سے حویلی بنانے والے اپنے بیٹے کے منتظر ہوتے ہیں اور گھر کی دہلیز پرقدموں کی ہر آہٹ پر کان دھررہے ہوتے ہیں۔

پاکستان کی ایکسپورٹ کے لگ بھگ اور اب اس سے بھی زیادہ مالیت کی ترسیلات زر ملک میں آرہی ہیں۔ ان ترسیلات زر کے پیچھے طویل شخصی داستانیں ہیں، کہیں دردناک کہانیاں ہیں، کہیں حیرت ناک واقعات ہیں۔ کہیں دوپہر کی گرمی میں دیار غیر میں پاکستانی مزدوروں کا پسینہ بہہ رہا ہوتا ہے جو یہاں ہمارے ملک کو چلانے کے لیے ایندھن فراہم کرتا ہے ۔ کہیں سرد موسم میں پاکستانی تارکین وطن سخت مشقت سے اپنے جسموں کو حرارت پہنچارہے ہوتے ہیں جس کی تپش سے یہاں کے بہت سے چولہے جلتے ہیں۔ پاکستانیوں کی شب وروز کی محنت ومشقت سے کمائے گئے یہ ڈالرز ،یہ بونڈز، یہ یوروز، یہ درہم ودینار اور ریالات ملک کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہیں۔

بہت سے پاکستانی وطن عزیز کے معاشی حالات سے مایوس ہوکر اپنے تن دھن کی بازی لگاکر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اسی لیے باہر جاتے ہیں تاکہ وہاں سے کچھ ریال وڈالر بھیجیں گے، تو ماں کا علاج ہوگا، بچوں کی بروقت فیسیں ادا ہوں گی۔اس طرح سے ہر سال ہر ماہ ترسیلات زر میں اضافے کا ہونا محض ایک اقتصادی اشاریہ نہیں بلکہ لاکھوں محنت کشوں کی ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو وہ اپنوں سے دور رہ کر محنت کرکے بھیج رہے ہوتے ہیں۔ برسہا برس گزرنے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوتے، قدموں میںلغزش نہیں آتی اور ہر سال ان کی ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

گزشتہ ماہ مارچ میں ترسیلات زر کا حجم 4.1ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس سے قبل تخمینہ لگایا گیا تھا کہ سال 2024-25کے دوران ترسیلات زر 36ارب ڈالر تک رہیں گی۔ اسی سال کے پہلے ماہ جنوری میں ترسیلات زر 3ارب ڈالر کی رہیں پھر فروری میں 3.1ارب ڈالرز رہیں اور اب مارچ میں اس میں مزید ایک ارب ڈالر کا اضافہ انتہائی خوش آیند ہے۔ یعنی 4ارب 10کروڑ ڈالر کی آمد کو معیشت خوش آمدید کہہ رہی ہے۔

اب ہر سال ترسیلات زر میں اضافے کی بات کرلیتے ہیں تو سال 2020ء کو جب کورونا دنیا بھر میں لاک ڈاؤن برپا کردیا تھا۔ کارخانے بند، دکانیں بند، کاروبار بند، تیل کی گرتی قیمتیں اور ہر طرف مایوسی، منفی معاشی ترقی، ایسی صورت میں عالمی بینک نے پیش گوئی کر دی تھی کہ اس سال مختلف ملکوں کو بھیجی جانے والی رقوم میں زبردست کمی ہوگی۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔ 2020-21میں 29ارب ڈالر کی ترسیلات زر کی ملک میں آمد ہوئی۔ اگلے ہی برس 2021-22میں 31ارب 20لاکھ ڈالر بطور ترسیلاتِ زر سمیٹے گئے۔ ان دنوں ملک میں ڈیفالٹ کا بڑا خطرہ پیدا ہونے کا ایک ہوّا کھڑا کر دیا گیا تھا جسے اپریل 2022ء میں نئی آنے والی حکومت نے بمشکل سنبھالا۔ اس میں ترسیلات زر بھیجنے والے اہل وطن کا بھی کردار ہے کہ وہ اس عالمی پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے چلا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک کو اپنی حیثیت اور کمائی کے مطابق ترسیلات بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اس سال یہ 38ارب ڈالر کے حجم تک تک بآسانی پہنچ جائے گا۔ بشرطیکہ دیگر حالات بدستور اسی طرح سے قائم رہے۔ کیونکہ امریکا نے جس طرح سے تجارتی جنگ کا آغاز کردیا ہے اور چین کے ساتھ انتہائی سخت ترین ایسی تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے، جس میں بارود بشکل ٹیرف کی مقدار بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ اب اسے بڑھا چڑھاکر 245فیصد کردیا ہے۔ یہ جنگ جب تک جاری رہے گی،دنیا بھر کی معیشتیں غیر یقینی صورت حال سے دوچار رہیں گی ۔امریکا میں مہنگائی کا سیلاب ہی بالاخراس جنگ کی آگ کو بجھانے کے کام آئے گا لیکن تب تک اس جنگ کے معاشی، اقتصادی، سیاسی ،سماجی اثرات کمزور معیشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہوں گے۔ اس وقت ہر طرف منفی، مایوسی کی باتیں ہورہی ہیں۔ عالمی معیشت اگر شدید کساد بازاری کا شکار ہوکر رہ گئی تو سمجھیں کہ عالمی پیمانے پررائٹ سائزنگ کا عمل شروع کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں سب سے پہلے غیرملکی نشانے پر آ جائیں گے جس میں پاکستانی بھی شامل ہوں گے۔ لہٰذا ایک حکومت کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ بیلاروس کی طرح دیگر ملکوں کے ساتھ بھی افرادی قوت سے متعلق معاہدے کرکے اپنے نوجوانوں کو وہاں بھیجنے کی کوشش کریں۔اس کے لیے انہیں ہنر سکھائیں، 3ماہ، 6ماہ کی ٹریننگ دیں۔دنیا میں کئی ملکوں کی جانب سے یہ آفرز آتی رہی ہیں کہ وہ اپنا ایک مخصوص علاقہ دنیا کے مختلف ملکوں سے شہری لے کر آباد کرنا چاہتے ہیں، پاکستانی حکام روس اور دیگر ایسے ملکوں کے اس آفرز کو حد نظر رکھے، اس کے علاوہ کئی ممالک ایسے ہیں جن کا ہزاروں مربع میل کا علاقہ غیرآباد پڑا ہے۔ جہاں پاکستان سے زراعت سے وابستہ اور دیگر ہنر مند افراد فیملی کے ساتھ جاکر رہائش وملازمت حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ حکومت اس قسم کے معاہدے کرے۔

جہاں ہم دیار غیر میں موجود پاکستانیوں کی بات کرتے ہیں تو کچھ وطن عزیز میں چار عشروں سے مقیم افغان باشندوں کی مشکلات کا بھی کچھ ذکر ہوجائے ۔آج کل افغان مہاجرین کو واپس وطن روانہ کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کے کاروبار اور جائیدادوں کو تحفظ دیا جانا چاہیے۔ افغان مہاجرین کے اثاثے ، جائیدادیں اوربینکوں میں پڑی رقوم ہماری معیشت کا حصہ ہیں،انہیں بہتر طریقے سے مینیج کیا جانا چاہیے تاکہ افراتفری سے بچا جاسکے۔اس کے علاوہ بہت سی پاکستانی خواتین نے اپنے افغان شوہروں کے ساتھ جانے سے انکار کردیا ہے۔ ان کے ساتھ بچے بھی ہیں۔ ان کے حقوق کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ حکومت پاکستان انسانی ہمدردی کے تحت ایسے افراد کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے۔ ایسے افغان شوہروں کو پاکستان باربار آنے جانے کی اجازت دی جائے یا مزید 5یا 7سال تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ بہرحال ان کے لیے کوئی درمیانی راستہ انسانی ہمدردی انسانی حقوق خاندان کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے آسان راستے کا چناؤ ضروری ہے۔ جس کے لیے حکومت فوری غور کرے اور ایسے افراد کے لیے نرمی کا اعلان کرے۔