مفتی عبدالرحیم صاحب افغانستان کے ایک بڑے محسن مولانا رشید احمد لدھیانوی مرحوم کے شاگرد رشید اور ان کی فکر کے وارث ہیں۔ جامعة الرشید جیسی ممتاز دینی درسگاہ کے سربراہ اور نامور دینی سکالر ہیں۔ مفتی عبدالرحیم صاحب کا افغانستان میں بہت وقت گزرا۔ طالبان کی پچھلی حکومت میں ان کے ساتھ گہرا تعلق رہا، طالبان کی تعمیر وترقی میں بہت مدد کی۔ امریکہ کے خلاف طالبان کی تحریک مزاحمت میں مفتی صاحب جیسے لوگ افغان طالبان کے ہمدرد اور معاون رہے۔ افغانستان کا چپہ چپہ انہوں نے دیکھا ہوا ہے اور وہاں کے حالات پر گہری نظر ہے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کے پوڈ کاسٹ ”جے ٹی آر میڈیا” پر موجود ہیں، تین پارٹ ہیں، سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ افغان ایشو، پاکستان کی پوزیشن اور اس حوالے سے موجود نزاکتوں، پیچیدگیوں کو انہوں نے بڑے عام فہم اور سلیس انداز میں بیان کر دیا ہے۔ مفتی صاحب افغان طالبان اور پاک افغان تعلقات کے مختلف ادوار کے محرم راز ہیں، بہت سے اہم اور حساس راز ان کے سینے میں دفن ہیں۔ وہ معاملات کی نزاکت اور حساسیت کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور کبھی غیر ضروری نکتہ سنجی نہیں کرتے۔ اس بار مگر انہوں نے خاصا کھل کر گفتگو کی۔
ان پر یہ تنقید بھی ہوئی کہ انہوں نے اتنے عرصے بعد کیوں زبان کھولی۔ اپنی گفتگو کی تیسری نشست میں مفتی عبدالرحیم صاحب نے اس کی وضاحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بائیس تیئس سال خاموش رہے، اس لئے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو تب پاکستان اور افغانستان دونوں کو نقصان پہنچ جاتا۔ اب افغان طالبان اور امریکا کی جنگ ختم ہوگئی، غیر ملکی افواج واپس چلی گئیں، صورتحال پہلے جیسی نہیں۔ اب بھی وہ مجبور ہو کر یہ چیزیں بیان کر رہے ہیں کیونکہ انہیں لگ رہا ہے کہ اگر خاموش رہے تو یہ غلط ہوگا اور گناہ کے زمرے میں آئے گا۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں پاک افغان بارڈز پاکستانیوں کے لئے پاک بھارت بارڈر سے بھی زیادہ خطرناک اور پریشان کن ہے۔ پاک افغان بارڈر چھبیس سو کلو میٹر کے لگ بھگ ہے، یہاں سے پاکستان کی سالمیت، معیشت اور امن وامان کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
مفتی عبدالرحیم نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں خاص کر سی آئی اے، ایف آئی اے، ایم آئی سکس وغیرہ کا بہت اثرونفوذ ہوگیا تھا۔ صرف کراچی میں امریکیوں ایجنسیوں نے پانچ ہزار کے قریب نوجوان اپنے طور پر بھرتی کئے، اسی طرح تب جو فاٹا کہلاتا تھا، اس کی ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں بڑے پیمانے پر ان ایجنسیوں نے بھرتیاں کیں۔ مفتی صاحب کے مطابق امریکیوں نے کراچی کو برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس کو دے رکھا تھا، اسی ایجنسی ہی نے کراچی میں الطاف حسین وغیرہ سے اپنے روابط استوار کئے اور دیگر معاملات بھی چلتے رہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی حساس ادارے بہت پریشان اور مضطرب رہے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کے مطابق دو ہزار دس میں ایک بڑے پیمانے پر ایکسرسائز ہوئی (مفتی صاحب نے اس کے لئے مشورہ کی اصطلاح استعمال کی جو دینی حلقوں میں زیادہ عام فہم اور مستعمل ہے۔ ) پاکستانی حساس اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب پاکستان میں غیر ملکی ایجنٹوں کو محدود تر کیا جائے اور پاک افغان بارڈر کو بھی پاک انڈیا بارڈر کی طرح سیل کر دیا جائے، باڑ لگائی جائے تاکہ آمد ورفت کم ہو اور اسے ریگولرائز کیا جا سکے۔ باڑ لگانے کا فیصلہ تب ہی ہوگیا تھا، تاہم اس وقت حالات ایسے نہیں تھے، یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں امریکی ادارے اس خطے میں جم کر ہی نہ بیٹھ جائیں۔ پھر جب یہ یقین ہوگیا کہ امریکی جانے والے ہیں تو پھر باڑ لگانے کے فیصلے پر عملدرآمد بھی کردیا گیا۔ یہ بہت مشکل ٹاسک تھا جسے بڑی مہارت سے سرانجام دیا گیا۔ مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہاں پر ایک ایسی بات کہی، جس سے بعض کئی لوگ متفق نہیں ہوں گے، خاص کر مسلم لیگ ن کے لوگ۔ مفتی صاحب کے بقول جنرل کیانی، جنرل پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام کو کریڈٹ دینا چاہیے (یہ تینوں یکے بعد دیگرے ڈی جی آئی ایس آئی رہے) کہ انہوں نے پاکستان سے غیر ملکی ایجنسیوں کے دائرہ کار کو محدود کیا، انہیں نکلنے پر مجبور کیا اور باڑ لگانے کا عمل بھی شروع کیا۔ جس کا جو کریڈٹ ہے، وہ اسے ملنا چاہیے۔
مفتی صاحب نے امریکی میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے برسبیل تذکرہ ایک فقرہ کہا کہ افغانستان میں امریکی بیس سال رہے، امریکیوں کے بقول ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی یہاں ہلاک ہوئے جبکہ آزاد ذرائع یہ تعداد بارہ تیرہ ہزار بتاتے ہیں، بعض کے خیال میں انتالیس ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ بہرحال جتنی بھی اموات ہوئیں، امریکی میڈیا پر کسی ایک تابوت کی تصویر بھی نہیں دکھائی گئی کہ فوج کا مورال ڈائون نہ ہو۔ جبکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کیسا منفی اور کمزور رویہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا ہے۔
مفتی عبدالرحیم نے وہ چند وجوہات بیان کیں جن کے باعث پاکستان کی افغان پالیسی میں شفٹ آیا اور بارڈر مینجمنٹ کا مشکل فیصلہ کیا گیا۔ سب سے پہلے تو جو بھرتیاں امریکی، برطانوی خفیہ اداروں نے پاکستان میں کر رکھی تھیں، وہ بذات خود ایک خطرہ تھا۔ دوسرا امریکیوں نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑے مراکز بنا کر ہزاروں لوگوں کو ٹرینڈ کیا تھا، وہ جو بیج بوئے گئے تھے، انہیں ختم کرنا آسان نہیں۔ یہ پوٹینشل تھریٹ اتنا بڑا تھا کہ پاکستان کے اثاثہ جات کو اب خطرہ انڈیا سے زیادہ افغانستان سے ہے، وہاں کے لوگوں کی آمد ورفت سے ہے، اس لئے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ پاکستان آنے والا کوئی افغان کس نیت سے آیا ہے؟
پاکستان میں موجود افغانوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، گیارہ لاکھ، اکیس لاکھ وغیرہ، تاہم مفتی صاحب کے مطابق حقیقی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ سب خام اندازے ہیں۔ زیادہ امکانات ہیں کہ پاکستان میں موجود افغانوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے کیونکہ مختلف ادوار میں افغان وہاں سے ہجرت کر کے یا پناہ لینے کی خاطر یہاں آتے رہے ہیں اور وہ کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ جتنے لوگ پاکستان سے افغانستان گئے ہیں، اس سے زیادہ یہاں واپس آئے ہیں۔ سب سے اہم معاملہ پاک افغان بارڈر کراس کرنے والے سمگلروں کا ہے، یہ تین چار قسم کے ہیں۔ معیشت کی کمر توڑ دینے والی ڈالر کی سمگلنگ تھی۔ پاکستان سے سات ارب ڈالر سالانہ افغانستان جاتے رہے، جس سے ڈالر کرائسس آیا۔ آج کل ڈالر کنٹرول میں ہے تو سب سے بڑی وجہ اس سمگلنگ پر کنٹرول ہے۔ دوسری قسم اسلحے کے سمگلرز کی ہے، امریکہ یہاں پر سات ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ گیا، یہ سب سمگل ہو رہا ہے اور پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ تیسری بڑی قسم منشیات کے سمگلرز ہیں۔ افغانستان کے کئی علاقوں میں پوست کی کاشت ہوتی ہے۔ اعلانیہ کاشت ہوتی ہے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہاں ایک ایسی بات بتائی جو میرے لئے تو بالکل نئی ہے۔ ان کے مطابق پوست کی کاشت علماء میں ایک متنازع ایشو رہا ہے، بعض علماء کا خیال ہے کہ جس چیز کے استعمال کے فوائد زیادہ ہوں، وہ جائز ہے، اسی بنیاد پر افغان علماء کا فتویٰ تھا کہ پوست کی کاشت جائز ہے کیونکہ یہ ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ ویسے انڈیا میں بھی چار ارب ڈالر کے لگ بھگ پوست کاشت ہوتی ہے، مگر وہ تمام کی تمام ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ پوست کاشت جائز ہونے کا افغان علماء کا پرانا فتویٰ تھا جوکہ بعد میں بھی جاری رہا۔
مفتی عبدالرحیم صاحب سے سوال پوچھا گیا کہ ملا عمر نے کیسے کاشت صفر کر دی تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ ملا عمر نے کاشت کو حرام نہیں قرار دیا۔ ملا عمر نے عقلمندی کی کہ فتوے کو چھیڑے بغیر انتظامی حکم جاری کیا کہ بے شک یہ جائز ہو مگر ہمارے لئے انتظامی مسائل ہیں اس لئے اس کی کاشت فوری روک دی جائے اور یوں ان کے حکم پر عملدرآمد ہوا اور یہ کاشت صفر ہوگئی۔ یہ ایک حیران کن انتظامی کامیابی تھی۔ (جاری ہے)