بلاول نفرتوں کو فروغ نہ دیں

بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ تین سال سے مسلم لیگ ن کو دھمکیاں اور بھبھکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ سلسلہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن روایتی حریف سیاسی پارٹیاں ہیں جو ماضی میں اسی طرح سے ایک دوسری کی مخالف رہی ہیں جس طرح آج یہ دونوں پارٹیاں پی ٹی آئی کی مخالف ہیں یا پی ٹی آئی ان کی مخالف ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی پنجاب میں بھی مقبول ترین جماعت رہی ہے۔ مقتدرہ نے جب پنجاب سے پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول کرنے کا فیصلہ کیا تو بے نظیر بھٹو اپنی سیاسی بصیرت اور طلسماتی شخصیت کی بدولت پیپلز پارٹی کو پنجاب کے اندر زندہ رکھنے میں کامیاب رہیں۔ ان کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی۔ پنجاب کے لوگوں نے آصف زرداری کوبے نظیر بھٹو کے متبادل کے طور پر قبول نہ کیا۔ بلاول نے جب عملی سیاست میں قدم رکھا تو ان کی ترجیحات میں یہ شامل تھا کہ انہوں نے پارٹی کو پنجاب میں اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پنجاب میں ان کی اصل حریف مسلم لیگ ن ہے اس لیے 2024کے الیکشن کی انتخابی مہم میں انہوں نے اپنی توپوں کا رخ میاں نواز شریف کی طرف ہی رکھا تھا۔ ان کی تمام تر کوشش اور محنت کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی۔

وفاق میں حکومت سازی کے عمل میں بلاول نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا۔ بدلے میں وزارتیں تو نہ لیں لیکن بہت سے آئینی عہدے حاصل کر لیے۔ پنجاب میں اپنی پارٹی کے لیے سپیس حاصل کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے مطالبات کی فہرست بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کو دے رکھی ہے جس میں اپنے ایم پی ایز کے لیے گرانٹس کی فراہمی، ہارے ہوئے امیدواران اور پارٹی کے صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی عہدیداران کے لیے مراعات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف ایسا کرنے پر رضامند نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن اس شرط پر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اکاموڈیٹ کرنے پر رضامند ہے کہ ویسی ہی مراعات اسے سندھ میں دی جائیں جس پر بلاول راضی نہیں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے پروگرام تو یہ بنایا تھا کہ امسال وفاقی بجٹ کو اسی صورت میں پاس کرنے کی حمایت میں ووٹ دیں گے جب پنجاب میں انہیں شیئر دینے کا مطالبہ منظور کیا جائے گا لیکن انہیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا موقع اس سے پہلے ہی مل گیا ہے۔ انہوں نے کینالز منصوبے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔ حیدرآباد میں منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وفاقی حکومت اور مسلم لیگ ن پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے شہباز شریف کو دو مرتبہ وزیرِ اعظم بنوایا۔ اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں۔ شیر والے صرف عوام کا خون چوستے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجوزہ 6کینالز میں سے دو کی منظوری بانی پی ٹی آئی نے دی تھی۔

جہاں تک کینالز منصوبے کی بات ہے تو حکومت بار بار کہہ چکی ہے کہ پیپلز پارٹی کو راضی کیے بنا یہ نہریں نہیں بنیں گی۔ ویسے بھی یہ معاملہ جلسوں کی بجائے مذاکرات کے ذریعے ہی طے ہونا ہے۔ بلاول بھٹو جلسوں کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے اگلا جلسہ 25اپریل کو سکھر میں کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

سڑکیں ہوں یا نہریں، یہ کسی بھی ملک کی وہ شریانیں ہوتی ہیں جن میں معیشت کا لہو دوڑتا ہے۔ ان کی تعمیر کی مخالفت ملکی معیشت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ مجوزہ نہروں کو پنجاب نے اپنے حصے کا پانی دینا ہے جس سے چولستان کا بنجر علاقہ آباد ہو گا۔ سندھ کو اپنے حصے کا پورا پانی ملے گا۔ ان نہروں کی تعمیر سے سندھ کے پانی میں کمی نہیں ہو گی۔ اگر بلاول کو تحفظات ہیں تو وہ مذاکرات کے ذریعے اپنے تحفظات پیش کریں۔ جلسے کر کے اور تند و تیز تقریروں کے ذریعے شاید وہ سندھ کے عوام کو تو اپنے پیچھے لگا لیں گے لیکن ایسا کر کے پنجاب کو وہ بہتر پیغام نہیں دے رہے۔ وہ اپنے موجودہ رویے اور احتجاج سے یہ ظاہر کر رہے ہیں جیسے وہ قومی سطح کی کسی پارٹی کے نہیں بلکہ ایک صوبائی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ پنجاب والے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے صوبے کی ترقی کا دشمن سمجھ رہے ہیں۔ یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر کل کلاں پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی تو وہ ساری توجہ سندھ پر مرکوز کر کے پنجاب کو نظرانداز کرے گی۔

اس سے پہلے کالا باغ ڈیم پر بھی پیپلز پارٹی نے اسی طرح تنازع کھڑا کیا تھا اور ابھی تک اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی۔ اگر یہ ڈیم بن جاتا تو سبھی کو فائدہ تھا۔ یادش بخیر پیپلز پارٹی نے تو موٹر ویز کی بھی سخت مخالفت کی تھی مگر آج سندھ میں موٹر ویز کی تعمیر کے لیے اس کی بے تابی دیکھنے کے قابل ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی آئی نے میٹرو بس کی مخالفت میں پوری پروپیگنڈا مہم شروع کر دی تھی۔ اسے جنگلہ بس کا نام دیا گیا مگر جب اسے غلطی کا احساس ہوا تو پشاور میں بی آر ٹی بنا لی۔ ملک کی تعمیر و ترقی پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ اپنی سیاست کی خاطر ملکی خوش حالی کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے چاہئیں۔ قومی سطح کی پارٹی کی سوچ بھی قومی ہونی چاہیے۔

جہاں تک بلاول کی دھمکیوں، بھبھکیوں اور احسانات گنوانے کی بات ہے تو یاد رکھیے! سیاست میں کوئی کسی پر احسان نہیں کرتا۔ اپنی حمایت کا پورا پورا معاوضہ وصول کیا جاتا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت سازی کے وقت بلاول زرداری کو وزیرِ اعظم بننے کی فراخ دلانہ پیشکش کی گئی تھی مگر انہوں نے کانٹوں کا تاج پہننے سے خود ہی انکار کر دیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ملکی معیشت ڈوب چکی ہے۔ بہت سے غیرمقبول فیصلے کرنے پڑیں گے۔ پارٹی کی مقبولیت کا گراف زمین پر آ گرے گا۔ انہوں نے اپنی سیاست بچانے کے لیے خود اس عہدے سے انکار کر کے مسلم لیگ ن کو ایک طرح سے پھنسانے کی کوشش کی تھی۔ وہ اپنی اس سمارٹ گیم کو بھی احسان بتا رہے ہیں۔ 2024میں مسلم لیگ ن کے خلاف

انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ مگر اس کے مقابلے میں کمتر رہے۔ انہوں نے معاہدے کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت سازی میں ساتھ دیا تھا۔ بدلے میں ملک کی صدارت، دو صوبوں کی گورنرشپ اور بہت سے آئینی عہدے حاصل کیے تھے۔ یہ حمایت مفت میں نہیں کی گئی۔ بلاول نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ وزارتوں کو لات مارتے ہیں۔ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کون سی وزارتوں کو لات مار رہے ہیں؟۔ ان کی پارٹی کے پاس تو ایک وزارت بھی نہیں ہے۔ کیا بلاول اپنے والد سے صدرِ مملکت کا عہدہ واپس کروا سکتے ہیں؟ پنجاب اور پختون خوا کی گورنرشپ چھوڑ دیں گے؟ دیگر حاصل کردہ آئینی عہدوں کی سربراہی سے دستبردار ہوں گے؟ یقیناً وہ ایسا نہیں کریں گے۔ مقتدرہ اسی سسٹم کو چلانا چاہتی ہے۔ بلاول میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ مقتدرہ سے ٹکر لے کر اپنے سیاسی کیریئر کے ابتدا میں ہی اپنے لیے مسائل کھڑے کر لیں۔ ان کے والد پر کچھ سنجیدہ کیسز بھی چل رہے ہیں۔ صدارتی استثناء کی وجہ سے ان کیسز پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ جس دن وہ صدارت سے ہٹیں گے فائلیں کھل جائیں گی۔ کیا بلاول شدید بیمار والد کو کسی پریشانی میں خود ہی ڈال پائیں گے۔ دھمکیاں دینا آسان ہے ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اپنی سیاست چمکانے کی خاطر دو صوبوں کے عوام کے درمیان نفرتوں کو فروغ دینے کی بجائے معاملات کو افہام و تفہیم سے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔