اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اے ایمان والو! اپنے صدقات کو جِتلا کر اور (صدقہ لینے والے کو) اذیت پہنچا کر اس شخص کی مانند ضائع نہ کرو’ جو لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا’ اس کی مثال اس ہموار چٹان کی طرح ہے جس پر کچھ مٹی جم گئی (اور کچھ سبزہ اگ آیا)’ پھر اس پر زوردار بارش ہوئی جس نے اسے صاف چٹان بنا کر چھوڑ دیا” (البقرہ: 264)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(١) ”اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری (ظاہری) صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا’ بلکہ وہ تمہارے قلوب اور اعمال (کے پیچھے کارفرما نیتوں) کو دیکھتا ہے” (مسلم: 2564)۔ لیکن شجرکاری اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ایسا پسندیدہ کام ہے کہ وہ نیت کے بغیر بھی عمل کے ثمرات پر اجر عطا فرماتا ہے’ بلکہ نیت کے برعکس بھی اجر عطا فرماتا ہے۔ انسان جو فصل اگاتا ہے’ چرند پرند’ حیوانات اور حشرات الارض سے اس کی حفاظت کرتا ہے’ اس کی نیت اس ساری مخلوق کو فائدہ پہنچانے کی نہیں ہوتی’ لیکن چونکہ اس کے عمل سے اللہ کی مخلوق روزی پاتی ہے’ تو اللہ تعالیٰ نیت کے بغیر اسے اجر سے نوازتا ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا: ”جو شخص کوئی درخت لگائے یا فصل کاشت کرے’ پھر اس سے کوئی انسان یا پرندہ یا درندہ یا چوپایا کھائے’ تو وہ اس کیلئے صدقہ ہے” (مسند احمد: 15201)۔
(2) ”جو بھی مسلمان کوئی پودا اگاتا ہے تو اس درخت سے جو کچھ کھایا جائے’ جو اس سے چوری ہو جائے یا درندے اس سے کھا لیں یا پرندے اس سے چگ لیں’ یہ سب اس کے لیے صدقہ ہے” (مسلم: 1552′ ملخصاً)۔ امام رازی لکھتے ہیں: ”روایت میں ہے: نزولِ وحی کے وقت موسیٰ علیہ السلام کا دل اپنے گھر والوں کی طرف متوجہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: چٹان پر اپنے عصا کو مارو’ چٹان پھٹ گئی اور دوسری چٹان نکل آئی’ پھر دوسری’ تیسری اور چوتھی ضرب پر بالترتیب چوتھی چٹان نکل آئی۔ اس میں سے ایک باریک سا کیڑا نکلا’ اس کے منہ میں ایک ایسی چیز تھی جو غذا کی طرح محسوس ہو رہی تھی’ موسیٰ علیہ السلام نے اس کیڑے سے یہ الفاظ سنے: پاک ہے وہ ذات جس نے مجھے دیکھا’ جس نے میری فریاد کو سنا اور میری جگہ کو پہچانا’ وہ مجھے یاد رکھتا ہے اور بھلاتا نہیں ہے” (تفسیر کبیر’ ج: 17′ ص: 318)۔ پس اللہ تعالیٰ کی رزّاقی کی شان یہ ہے کہ وہ تہہ در تہہ چار چٹانوں کے اندر بھی کیڑے کو روزی پہنچاتا ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ انسان کی کاشت کردہ فصل سے انسان ہی فائدہ اٹھائیں تو اس کو اجر ملے گا’ بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جوکوئی بھی اس سے فائدہ اٹھائے’ اللہ تعالیٰ اس درخت کو لگانے والے کی نیکیوں میں اضافہ فرماتا رہے گا۔
(3) رسول اللہۖ نے فرمایا: ”جس نے کسی ظلم وزیادتی کے بغیر کوئی گھر بنایا یا کوئی درخت اگایا’ تو جب تک اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے کوئی ایک بھی اس سے نفع اٹھا رہا ہے’ اسے ثواب ملتا رہے گا” (مسند احمد: 15616) بلکہ اگر کوئی درندہ بھی اس سے فیضیاب ہو’ تب بھی اس کو اس کا اجر ملے گا۔ (4 ) رسول اللہۖ نے فرمایا: جس نے شجرکاری کی یا فصل کاشت کی’ پھر اس میں سے کوئی انسان یا درندہ یاحیوان یا پرندہ کھاتا ہے تو یہ اس کیلئے صدقہ ہے” (مسند احمد: 27043)۔ میں نے شجرکاری کی اہمیت اور فضیلت پر اس حدیثِ مبارک سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں دیکھی۔ (5 ) آپۖ فرماتے ہیں: ”اگر قیامت سر پہ کھڑی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کسی درخت کی کوئی قلم یا پودا ہے کہ اگر وہ اٹھنے سے پہلے اسے زمین میں لگا سکتا ہے’ تو ضرور لگا لے” (مسند احمد: 12981)۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور کائنات کی ہر چیز سمیت وہ نیا لگایا ہوا پودا بھی چند لمحوں میں فنا ہو جائے گا’ لیکن رسول اللہۖ نے اس کے باوجود فرمایا کہ وہ قیامِ قیامت سے پہلے شجرکاری کی سعادت حاصل کر سکتا ہے تو ضرور کرے’ یقینا اسے آخرت میں اجر ملے گا۔ پس لازم ہے کہ شجرکاری کو محض ایک دنیاوی ضرورت ہی نہ سمجھا جائے’ بلکہ اسے دین کا ایک پسندیدہ عمل سمجھ کر کیا جائے۔ الغرض قدرت اپنی زمین کو ہرا بھرا’ جنگلات کو آباد اور ماحول کو سرسبز وشاداب دیکھنا چاہتی ہے’ مگر ہم ہیں کہ اسے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اب اس کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے کرتوتوں کے وبال سے اپنی پناہ میں رکھے۔
امام رازی لکھتے ہیں: ”فارس کے بادشاہ کثرت سے نہریں کھودتے اور درخت لگاتے تھے’ اس کے سبب ان کی عمریں طویل ہوتی رہیں’ اللہ کے ایک نبی نے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ سے ان کی طویل عمروں کا سبب پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: ”انہوں نے میرے ملکوں کو آباد کیا’ وہاں میرے بندوں کے لیے سامانِ زیست پیدا ہوا۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں حضرت معاویہ بنجر زمینوں کو آباد کرتے تھے’ ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: مجھے اس شعر نے اس خصلت پر آمادہ کیا ہے: ترجمہ: وہ بھی کوئی انسان ہے جس سے کسی کو کوئی فیض نہ ملے اور اس کے بعد زمین میں اس کے کوئی نشانات باقی نہ رہیں’ (تفسیر کبیر’ ج: 18′ ص: 367)۔
پس درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے اور اس نیک عمل کا فیضان موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا: سات اعمال ایسے ہیں جن کا اجر بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے’ حالانکہ وہ قبر میں ہوتا ہے: جس نے علم سکھایا یا نہر کھدوائی یا کنواں کھودا یا کوئی درخت لگایا یا کوئی مسجد تعمیر کی یا قرآن کریم ترکے میں چھوڑا یا ایسی اولاد چھوڑ کر دنیا سے گیا جو مرنے کے بعد اس کیلئے دعائے مغفرت کرتی ہے (مجمع الزوائد: 769)۔
قرآنِ کریم میں ہے: ”نوح علیہ السلام نے کہا: بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے’ وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا اور مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات (اگائے گا) اور دریا بہائے گا” (نوح: 10تا 11)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔ استغفار ہر حال میں مفید ہے۔ علامہ قرطبی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”امام حسن بصری کے پاس چند لوگ اپنے مسائل لے کر آئے’ ایک نے خشک سالی کی شکایت کی’ دوسرے نے تنگ دستی کی شکایت کی’ تیسرے نے بیٹے کی خواہش ظاہر کی’ چوتھے نے باغات کے اجڑ جانے کی شکایت کی’ آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا: ”اللہ سے استغفار کرو”۔ ان سے پوچھا گیا: آپ نے ہر مسئلے کا حل استغفار کو بتایا’ انہوں نے کہا: یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہا’ سورۂ نوح میں ہر دکھ کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے استغفار کی تعلیم فرمائی ہے” (تفسیر قرطبی’ ج: 18′ ص: 302)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے لیے دعا فرماتے اور طوفانی بارش کے تھم جانے کے لیے دعا فرماتے: ”اے اللہ! اس بارش کو ہم پر نہ برسا’ ہمارے اردگرد’ ٹیلوں’ پہاڑوں’ وادیوں اور جنگلات پر برسا” (بخاری: 1013)۔ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبیۖ نے فرمایا: ٹھہر جاو’ جلدی نہ کرو’ اگر خشوع وخضوع والے نوجوان’ عبادت گزار بوڑھے’ چرنے والے چوپائے اور شیرخوار بچے نہ ہوتے تو تم پر عذاب نازل ہوتا” (السنن الکبریٰ للبیہقی: 6390)۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ”رسول اللہۖ نے فرمایا: سلیمان علیہ السلام بارانِ رحمت کی دعا کے لیے نکلے’ تو انہوں نے ایک چیونٹی کو دیکھا کہ پیٹھ کے بل لیٹی ہوئی ہے’ چاروں ٹانگیں آسمان کی طرف بلند ہیں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کر رہی ہے: اے اللہ! ہم آپ کی مخلوق میں سے ایک ہیں’ تیری بارانِ رحمت کے سوا ہمارا اور کوئی وسیلہ نہیں ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے (یہ منظر دیکھ کر) فرمایا: لوٹ جائو! اس چیونٹی کی دعا کی برکت سے تمہیں بارش نصیب ہو جائے گی” (بلوغ المرام: 521′ المصنف لابن ابی شیبہ: 29487)۔ اسی لیے فقہائے کرام نے لکھا ہے: نمازِ استسقاء کے لیے جاتے وقت شیر خوار بچوں اور مویشیوں کو لے کر جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرنے کے سارے اسباب موجود ہوں۔