کسی دانا نے کہا تھا کہ میں نے وقت ضائع کیا، اور اب وقت مجھے ضائع کر رہا ہے۔ اس کی عملی مثال عمران خان ہیں جو اب بھی خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ اپنے آپ کو دھوکا دینا اور غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا عمل خود فریبی کہلاتا ہے۔
خود فریبی کے خوابوں میں ہم رہے ورنہ
اپنی اوقات میں رہتے تو، قلندر ہوتے
بسا اوقات یہ سمجھا جاتا ہے کہ حریف کو پچھاڑنا ہی اصل فتح ہے، انانیت سے تخریب تو ممکن ہے تعمیر نہیں۔
”تعمیر وطن میں سے نہیں ہم سے ہوئی ہے”
باہمی اختلافات اور رنجشیں مل بیٹھ کر صلح و صفائی کے ساتھ دور کی جا سکتی ہیں، اگر ایک سختی اور تشدد پر اتر آئے، دوسرا نرمی اختیار کرے تو فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ جھوٹی انا وجود کو مٹا دیتی ہے۔
مخالفت برائے مخالفت کی سیاست میں مفاہمت مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتی ہے۔ صوفی تبسم مرحوم کے الفاظ میں۔
ایک تھا تیتر ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دم
دیکھیں چونچ کس کی گم ہوتی ہے اور دم سے کون محروم ہوتا ہے۔ عمران خان دو سال سے پسِ زنداں ہیں۔ اس دوران انہوں نے ہر سمت گولہ باری کی، باجوہ کو گالی بھی دی اور توسیع کی پیشکشیں بھی کیں۔ 9مئی کے کارنامے کو اغیار کی سازش قرار دیا، لشکر کشیوں کے احکامات بھی دیے اور مذاکرات کے عندیے بھی۔ سوشل میڈیا پر حواریوں کی دشنام طرازی کو اپنے احکامات کی بجا آوری اور کبھی حکم عدولی ٹھہرایا، کبھی آرمی چیف کی تعیناتی رکوانے کے لیے جلوس بھی نکالے اور ان سے راہ و رسم استوار کرنے کی خواہش بھی کی، فوج کو بدنام کیا اور انکل سام سے، آشیرباد کے لیے لا بنگ بھی کی۔ مگر سارے وار خطا گئے۔
کہتے ہیں انسان اپنا سب سے بڑا دشمن خود ہوتا ہے، وہ ایسے اہداف منتخب کرلیتا ہے جو اس کی صلاحیت سے ماورا ہوتے ہیں۔ عمران خان مسلسل کوشاں ہیں کہ انہیں جیل سے رہائی ”نہ” ملے۔ انہوں نے بے سپر ہونے کے بعد اپنے مخالفین کو للکارنا شروع کر دیا، اس طرزِ عمل سے جنگوں میں کام یابی ملتی ہے نہ سیاست میں۔ رہائی کے لیے دھمکیاں نہیں مذاکرات کرکے کوئی رستہ نکالا جاتا ہے اور دوبارہ قوت اکٹھی کرکے نئی تدابیر سے آغاز کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی خودشکنی عثمان بزدار کی تعیناتی سے ہی عیاں تھی، باقی کسر یکے بعد دیگرے اپنی صوبائی حکومتیں توڑ کر پوری کی۔ وہ خود اپنی دشمنی میں حد سے آگے نکل گئے۔ عمران خان نے اداروں، سیاست دانوں، حتی کہ سعودی عرب جیسے طاقت ور ممالک سے بہ یک وقت پنجہ آزمائی کی۔ اگر انہوں نے متوازن رویہ اختیار کیا ہوتا تو شاید اب تک ان کی رہائی ہو چکی ہوتی۔ اب عالم یہ ہے کہ ایک دن جشن منایا جاتا ہے تو اگلے دن غم کی فضا طاری ہو جاتی ہے۔ خوشی ملنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ وہ تو پرینک تھا۔ امریکا کے خان کی رہائی کے لیے ”سرگرم” ہونے کی اطلاع دی گئی جس کے لیے پاکستانی برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف کو بطور دلیل پیش کیا گیا۔ خان کو امن کا نوبل انعام ملنے کی خبر چلائی گئی۔ لیکن نوبل انعام کمیٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے اس خبر کو جھوٹ قرار دیا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلری کا چرچا بھی ہوتا رہا مگر کمند ہی ٹوٹ گئی۔ ٹرمپ کے دست راست ایلون مسک کی پاکستان آنے، ملکی صورتحال پر رپورٹ لکھنے، ان کی سفارشات کی روشنی میں ٹرمپ کے خان کو رہائی دلانے بلکہ وزیر اعظم بنوانے کی خبر دی گئی اگلے دن پتا چلا کہ ٹرمپ نے مسک کو برطرف کر دیا۔
کچھ لوگ عمران خان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا چہرہ مہرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی اہم ترین دلیل یہ ہے کہ ”خان طویل عرصے سے ڈٹ کر کھڑا ہے۔” جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے دن سے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بہتر بنانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں دسمبر 2022میں پی ٹی آئی کے پانچ رکنی وفد نے نئے آرمی چیف سے ملاقات کرکے عمران خان کے بعض بیانات و تقاریر کی وضاحت پیش کی۔ بات چیت ختم ہوئی تو وفد کو ایک آڈیو سنوائی گئی جس میں ایسا کچھ تھا کہ پانچ رکنی وفد کی سیٹی گم ہوگئی۔ آڈیو سنا کر مشورہ دیا گیا کہ زبان و بیان پر اپنے لیڈر کو کنٹرول سکھائیں۔ اپریل 2022میں جب عمران وزارت عظمی کے منصب سے رخصت ہوئے تو ایک طرف وہ اس وقت کے آرمی چیف وغیرہ اور امریکا کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین پر گرج برس رہے تھے تو دوسری جانب انہوں نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے توسط سے آرمی چیف جنرل باجوہ سے تین ملاقاتیں کیں، دو ایوان صدر میں اور تیسری ملاقات آبپارہ کے قریب ایک دفتر میں ہوئی جس نے ثابت کیا کہ، وہ اب بھی ”اسی عطار کے لونڈے” سے دوا لینے کو ہی مرض کا علاج سمجھتے ہیں۔ 2011میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی گود میں آنے کے بعد انہیں دن دگنی رات چوگنی ترقی ملی۔
انہوں نے اپنی وزارت عظمی کے آخری مہینوں میں آئی ایم ایف سے (2021)معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دی۔ تحریک انصاف کے دو صوبائی وزرائے خزانہ (خیبر پختونخوا اور پنجاب) نے آئی ایم ایف کو حکومت کے خلاف جو خطوط لکھے وہ کس سیاسی اخلاقیات کا نمونہ تھے؟ پارٹی کا سوشل میڈیا ایک ایسا چھچھوندر ہے جسے عمران خان نہ نگل سکتے ہیں اور نہ اگل سکتے ہیں۔ اب احساس ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت سی دشمنیاں خان کی رہائی میں رکاوٹ ہیں۔
موجودہ سوشل میڈیا پالیسی کے ساتھ پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی رہائی یا سیاست میں واپسی مشکل ہے۔ چند طاقتور امریکی پاکستانیوں کی اعلی عسکری قیادت سے ملاقاتوں سے عسکری قیادت نے خان کے ایشو پر کچھ لچک دکھائی اور کہا گیا کہ جو کچھ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کر رہی ہے اس سوچ کو بدلے۔ تسلیم کیا گیا کہ سو شل میڈیا کی وجہ سے معاملات اس حد تک آگئے ہیں۔ لیکن عمران خان ان معاملات میں کسی کا مشورہ نہیں مانتے۔ عمران خان سوشل میڈیا کی طاقت کو مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر کامیابی سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ چاہے وہ جج ہوں، سرکاری افسران، صحافی مخالف سیاستدان یا عسکری قیادت۔ ان ملاقاتوں کے بعد پی ٹی آئی نے کچھ دن تو اپنے حامی یوٹیوبرز سے دوری اختیار کی۔ تعلقات کی بہتری کے لیے اعلان کیا کہ باہر بیٹھے یوٹیوبرز جو کچھ کہتے ہیں اس سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں۔ اعظم سواتی کے بقول بانی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور اعتراف کیا کہ انہوں نے بہت سے ذرائع سے بات چیت شروع کرنے کی شدید کوشش کی لیکن وہ ابھی تک بانی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت کے بند دروازے نہیں کھلوا سکے۔ اب تک تو یہی بتایا جاتا رہا کہ ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان۔ اسٹیبلشمنٹ تو بات چیت کے لیے تیار ہے، کپتان نہیں مان رہا۔ لیکن اعظم سواتی ساری لنکا ڈھا دی۔
جب بانی پی ٹی آئی آرمی چیف کو خط پر خط لکھ رہے تھے، تب ایک تقریب میں آرمی چیف سے ان خطوط کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا۔ اگر مل جائے تو، میں وزیر اعظم کو بھیج دوں گا۔ جب مذاکرات کے بند دروازے نہیں کھلتے تو اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے لیے سوشل میڈیا پر مخالفانہ مہم چلائی جاتی ہے۔ ورنہ اندر سے تو بات چیت کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ خود فریبی کا یہ دیرینہ مرض جانے اور کیا گل کھلائے گا۔
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ