اقوام متحدہ: ایک نعرہ امن جو ظلم کے سائے میں دب گیا

دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا ایک شدید تباہی اور خونریزی کا شکار ہو چکی تھی، انسانیت نے یہ عہد کیا کہ اس خوفناک تاریخ کو دہرایا نہیں جائے گا۔ اس مقصد کے تحت 1945میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد تھا کہ دنیا بھر میں امن و امان قائم کیا جائے، قوموں کے درمیان تنازعات کو حل کیا جائے اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد عالمی امن کے لیے ایک فورم فراہم کرنا تھا تاکہ انسانوں کو جنگوں کے عذاب سے بچایا جا سکے۔ لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ نے اپنے منشور سے انحراف کیا اور طاقتور ممالک کے مفادات کے سامنے اپنی مؤثریت اور اہمیت کھو دی۔

اقوام متحدہ کا قیام دنیا کے غریب اور مظلوم ممالک کے لیے ایک امید کی کرن تھا اور خاص طور پر مسلم دنیا نے اس میں بڑی امیدیں وابستہ کیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے اپنے بنیادی مقاصد کو پس پشت ڈال دیا۔ فلسطین کی مثال اس کی سب سے واضح عکاسی ہے، جہاں ایک طرف اسرائیل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے، وہیں اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی اس بات کا غماز ہے کہ اس ادارے کا کوئی عملی کردار نہیں رہا۔ فلسطین میں اسرائیلی افواج کے مظالم پر اقوام متحدہ کی جانب سے متعدد قراردادیں منظور کی گئیں، لیکن عملی طور پر ان قراردادوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اقوام متحدہ نے کبھی بھی اسرائیل پر ایسا دباؤ نہیں ڈالا جس سے فلسطینی عوام کو انصاف ملتا۔

اسی طرح کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے ہونے والے مظالم اور جنگی جرائم پر بھی اقوام متحدہ نے ہمیشہ خاموشی اختیار کی۔ کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اقوام متحدہ کی طرف سے محض رسمی مذمت کے سوا کچھ نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی یہ خاموشی صرف فلسطین یا کشمیر تک محدود نہیں رہی، بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں جہاں بھی مسلمانوں کے حقوق پامال ہوئے، وہاں اس ادارے نے کبھی ان کے حق میں مضبوط موقف اختیار نہیں کیا۔ افغانستان میں امریکا کی قیادت میں فوجی حملہ کیا گیا، جس میں لاکھوں بے گناہ جانیں گئیں، مگر اقوام متحدہ اس ظلم کا محض تماشا دیکھتا رہا۔

دنیا میں ہونے والے اس ظلم کی سب سے بڑی وجہ اقوام متحدہ کا داخلی نظام ہے۔ پانچ ممالک : امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ کو ویٹو پاور حاصل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک میں سے کوئی بھی ملک عالمی فیصلے کو بلاک کر سکتا ہے، چاہے وہ فیصلہ پورے عالمی برادری کی مرضی کا ہو۔ یہ نظام اقوام متحدہ کی غیرجانبداری اور انصاف پسندی کو متاثر کرتا ہے اور اس کے قیام کے اصل مقاصد سے انحراف کرتا ہے۔ طاقتور ممالک اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور عالمی ادارے کو اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل پر ان طاقتور ممالک نے ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھا اور اقوام متحدہ کی طاقت کو بے اثر کیا۔

یہ حالات اس بات کا غماز ہیں کہ اقوام متحدہ اب ایک ایسی عالمی مشاورتی تنظیم بن چکی ہے جس کا مقصد صرف طاقتور ممالک کے مفادات کو فروغ دینا ہے، نہ کہ دنیا کے مظلوموں کو انصاف دلانا۔ اگرچہ اقوام متحدہ کا قیام ایک روشن خواب تھا، لیکن اس کا عملی کردار اب محض کاغذی قراردادوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی خاموشی اور غیر جانبداری نے عالمی امن اور انصاف کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

دنیا کو اب ایک نئے عالمی ادارے کی ضرورت ہے جو اقوام متحدہ کی ناکامیوں سے سیکھتے ہوئے ایک غیر جانبدار، منصفانہ اور مؤثر پلیٹ فارم فراہم کرے۔ ایسا ادارہ جو ہر ملک کی آواز سن سکے اور ہر قوم کو برابری کے حقوق دے سکے۔ اس نئے ادارے میں ویٹو پاور کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ ہر ملک کی رائے کو یکساں اہمیت دی جائے۔ اس ادارے کا مقصد صرف طاقتور ممالک کی خواہشات کو پورا کرنا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر انصاف، امن اور انسانیت کی بالادستی کو یقینی بنانا ہو گا۔

اگر اقوام متحدہ نے اپنی اصلاح نہ کی اور عالمی امن و انصاف کے لیے اپنی حقیقت کو نہ سمجھا، تو دنیا کو ایک نئے عالمی ادارے کی ضرورت ہوگی، جو نہ صرف قراردادیں پاس کرے بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کرے۔ دنیا کو ایک ایسا ادارہ چاہیے جو مسلمانوں اور دیگر مظلوم اقوام کے حقوق کا تحفظ کرے اور جو صرف طاقتور ممالک کے مفادات کے بجائے پورے انسانیت کے مفاد میں فیصلے کرے۔

اقوام متحدہ کی ناکامی نے عالمی برادری کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے اور اگر یہ ادارہ اپنی فطری اصلاحات کی طرف قدم نہ بڑھائے تو ایک دن یہ صرف ایک ناکام اور بے اثر تنظیم کے طور پر تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کو ایک نئے عالمی ادارے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ظلم کے خلاف آواز اٹھائے، بلکہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔