ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ صرف میرے ایک شخص کے بائیکاٹ کرنے سے کیا ہوگا؟ ہم لاکھوں کروڑوں لوگ یہی سوچتے ہیں اور ہر ایک کی زبان پر یہی سوال ہوتا ہے، حالانکہ اگر یہی لاکھوں کروڑوں لوگ اپنی اس انفرادی سوچ اور عمل کو اجتماعی بنالیں تو بائیکاٹ کے ذریعے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ظلم روکا جا سکتا ہے۔ ظالم کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ معصوموں کو بچایا جا سکتا ہے اور انسانیت کی آواز کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں فلسطین اور بالخصوص غزہ پر اسرائیل کی طرف سے ظلم، سفاکیت اور جارحیت کی تمام حدود پار کی جا چکی ہیں۔ لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ہزاروں شہید اور لاکھوں زخمی و بے گھر ہو چکے۔ بچے غذائی قلت کا شکار اور خواتین بے یارومددگار ہیں۔ ہسپتال تباہ ہو چکے۔ تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بن چکے اور زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں ختم ہو چکی ہیں۔ اگر ظلم کی کوئی پہچان اور درندگی کا کوئی مفہوم ہے تو وہ سب آج ہمیں فلسطین میں نظر آ رہا ہے۔
ایسے میں دنیا بھر میں درد دل رکھنے والے افراد، انسانیت پر یقین رکھنے والے لوگ اور دنیا بھر کے مسلمان اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ان کے دل روتے ہیں۔ زبانیں مذمت کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر احتجاج کیا جاتا ہے۔ آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں۔ دعائیں مانگی جاتی ہیں، مگر یہ سب کچھ ظالم کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ ان آنسووں سے نہ ٹینک رکتے ہیں، نہ بمباری، نہ قتل و غارت۔ دعائیں اپنی جگہ، مگر عمل کے بغیر دعاوں کی تاثیر بھی محدود ہو جاتی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے باشعور مسلمانوں نے بائیکاٹ کا راستہ اپنایا ہے۔ وہ کمپنیاں، وہ برانڈز، وہ مصنوعات، جو اسرائیل کو معاشی مدد دیتی ہیں، جن کا نفع براہِ راست اسرائیلی جنگی مشینری کو مضبوط کرتا ہے، جن کی آمدن گولیوں، بموں اور بارود میں تبدیل ہو کر فلسطینیوں پر برسائی جاتی ہے۔ ان کا بائیکاٹ ایک خاموش، مگر طاقتور احتجاج بن چکا ہے۔ بائیکاٹ صرف اقتصادی ہتھیار نہیں، بلکہ اخلاقی و انسانی ردِ عمل بھی ہے، جو ظالم کو شرمندہ کرتا ہے اور مظلوم کو سہارا دیتا ہے۔
آج کی دنیا میں جنگیں صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتیں۔ آج جنگیں معیشت کے میدان میں بھی لڑی جاتی ہیں۔ اسرائیل کے خلاف اگر کوئی سب سے موثر ہتھیار ہے تو وہ معاشی کمزوری ہے۔ اسرائیل کی جنگی مشینری کو چلانے والی بہت سی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں ہیں جنہیں ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم وہ پروڈکٹس خریدتے ہیں جو براہِ راست اسرائیلی معیشت میں پیسہ ڈالتے ہیں اور یہ پیسہ گولی، بارود، ٹینک اور بم کی صورت میں غزہ کے بچوں، ماوں اور بزرگوں پر برسایا جاتا ہے۔ یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں، یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اگر ہمارے دل میں تھوڑا سا درد اور ہمارے اندر ضمیر موجود ہے تو ہمیں ایک لمحے کو رک کر سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے پیسوں سے کس کی مدد کر رہے ہیں؟ ہم کن برانڈز کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ کیا وہ برانڈز ایسے نظریات، ایسے نظام اور ایسے جرائم کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف ہمارا ضمیر چیخ اٹھتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ان برانڈز کا ترک کرنا ہماری ایمانی غیرت کا تقاضا ہے۔
دنیا میں عوامی بائیکاٹ نے بہت بڑی کمپنیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ بعض ممالک میں ایسے قوانین بنائے گئے جن میں کمپنیوں کو اپنی شفافیت ثابت کرنی پڑی۔ بہت سی کمپنیاں مجبور ہوئیں کہ وہ اپنی اسرائیل نواز پالیسیوں سے پیچھے ہٹیں۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب صارفین نے اجتماعی طور پر شعور کا مظاہرہ کیا۔ اگر ہم بھی ایسی عوامی طاقت کو مجتمع کر سکیں تو یقینا بڑے بڑے ظالم، سرمائے کے نشے میں بدمست یہ ادارے اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آج اگر ہم فلسطین کے لیے، مظلوموں کے لیے، انسانیت کے لیے بائیکاٹ کریں گے تو یہ محض ایک وقتی ردعمل نہیں ہوگا، بلکہ ایک دائمی اثر رکھنے والی تحریک کا آغاز ہوگا۔
ہم اپنے آپ سے سوال کریں: کیا ہم اس ظلم کے خلاف صرف پوسٹیں لگا کر، ویڈیوز دیکھ کر، یا آنکھوں میں آنسو لا کر بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ یا ہمیں کچھ حقیقی اقدامات اٹھانے ہوں گے؟ بائیکا ٹ ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے ہمیں نہ کسی لیڈر کی ضرورت ہے، نہ کسی تحریک کی۔ یہ ایک ذاتی فیصلہ ہے جو اجتماعی اثر رکھتا ہے۔ بائیکاٹ کی طاقت صرف مالی نقصان تک محدود نہیں ہوتی، یہ ایک اخلاقی پریشر بھی ہوتا ہے۔ جب کوئی برانڈ دیکھتا ہے کہ صارفین اس سے ناراض ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ مارکیٹس میں اس کی سیل گر رہی ہے تو وہ اپنے اقدامات پر نظرثانی کرتا ہے۔ اسی دباو نے بہت سی کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ فلسطین کے حق میں بیانات دیں یا اسرائیل سے اپنی وابستگی ختم کریں۔ ہمیں اس اخلاقی دباو کو بڑھانا ہے۔
ظلم کے خلاف بائیکاٹ کی بات کی جائے توسوال کیا جاتا ہے: ہم ہر چیز تو خود نہیں بنا سکتے، ہر پراڈکٹ کسی نہ کسی طرح مغرب یا اسرائیل سے جڑی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مقصد مکمل خود کفالت نہیں، بلکہ ممکنہ حد تک ایسی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے جو براہِ راست ظالم ریاست کو فائدہ دیتی ہیں۔ مکمل نہ سہی، جزوی بائیکاٹ بھی موثر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں: کیا بائیکاٹ سے اسرائیل جیسے طاقتور ملک کو واقعی کوئی فرق پڑتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ مالیاتی رپورٹس گواہ ہیں حالیہ برسوں میں فلسطین کے حق میں عالمی سطح پر بائیکاٹ مہمات نے کئی بڑی کمپنیوں کی سیلز کو متاثر کیا اور کئی برانڈز نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ دیا۔ یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے: ان کمپنیوں میں مسلمان بھی کام کرتے ہیں، ان کا روزگار متاثر ہوگا۔ یہ بات وقتی طور پر درست ہو سکتی ہے، مگر جب نفع ظالم کو جاتا ہو تو نقصان کا احساس بھی ظالم کو ہونا چاہیے۔ روزگار کے نئے متبادل پیدا کیے جا سکتے ہیں، مگر مظلوموں کی لاشیں، تباہ گھر، یتیم بچے اور بیوہ خواتین متبادل نہیں رکھتیں۔سب سے بس ایک سادہ سا سوال ہے: کیا ہمارے بچوں کی جانیں، ہماری بہنوں کی عصمتیں، ہمارے بھائیوں کی لاشیں اتنی سستی ہیں کہ ہم انہیں چاکلیٹ، سوفٹ ڈرنک یا ایک مہنگے موبائل کے بدلے بیچ دیں؟ کیا ہمیں صرف اس وقت بائیکاٹ یاد آتا ہے جب ہم خود کسی ظلم کا شکار ہوں؟
بائیکاٹ دراصل اس پیغام کا نام ہے کہ ہم اپنے پیسے سے ظلم کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ ہر تبدیلی کی ابتدا مشکل ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہمیں عادتیں بدلنی پڑتی ہیں۔ متبادل تلاش کرنا پڑتا ہے۔ تھوڑا سا وقت اور کوشش دینی پڑتی ہے، لیکن اگر اس معمولی سی مشقت کے بدلے ہم کسی مظلوم کی مدد کر سکتے ہیں، کسی بچے کی جان بچا سکتے ہیں، کسی ماں کی آنکھوں سے آنسو پونچھ سکتے ہیں تو یہ سودا برا نہیں۔ ہمیں اب اپنی نسل کو بائیکاٹ کی تربیت دینی ہوگی۔ اسکولوں، کالجوں، مساجد، سوشل میڈیا اور ہر سطح پر اس شعور کو عام کرنا ہوگا کہ جو ظالم کے ساتھ ہے، وہ ظالم ہے۔ ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ بائیکاٹ ایک رویے کا نام ہے، ایک ضمیر کی بیداری کا نام ہے اور ایک کردار کی پختگی کا نام ہے۔