خادم رسول

زمانہ جاہلیت میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ والدجو اپنی بیوی کے اسلام سے ناخوش تھے، واقعہ ہجرت کے کچھ عرصے بعد فوت ہوگئے تو والدہ نے پرورش کی۔ چھوٹے سے تھے کہ والدہ نے کلمہ پڑھایا اور یوں اپنے مخدوم پر دیکھے بغیر ایمان لاکر بچپن ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئے۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو سوتیلے باپ نے ہاتھ سے پکڑ کر دربار رسالت میں پیش کرتے ہوئے ان کا نام لیکر کہا: ”یا رسول اللہ! یہ ایک سمجھدار لڑکا ہے۔” آپ نے کم عمری کے باوجود ان پر اعتماد فرماتے ہوئے اپنی کچھ راز کی باتیں بھی ان کے سپرد کیں، جنہیں انہوں نے نہ صرف آپ کی زندگی میں بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی کسی سے بیان نہ کیں۔ مدرسہ نبوی میں داخلہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک پورے دس سال سفر و حضر، امن اور جنگ میں آپ کی ایسی خدمت کی جس کی مثال تاریخ میں نہ ملے۔اپنے مخدوم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے انتہائی وفادار، رازدار اور ان سے بے حد محبت کرنے والے تھے۔ اسی مبارک صحبت اور خدمت کی برکت تھی کہ بیک وقت قاری بھی تھے، امام بھی، مفتی بھی، محدث بھی، راوی اسلام بھی، استاد بھی اور عامل اور مجاہد بھی۔

یہ تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص اور اس مبارک خدمت پر فخر کرنے والے حضرت انس بن مالک بن نضر انصاری خزرجی نجاری رضی اللہ عنہ، جن کی والدہ کا نام حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا تھا جو ایک اور اسلام کے عظیم ہیرو اور مشہور صحابی برا بن مالک کی بھی ماں تھیں۔ حضرت انس بن مالک کا تعلق قبیلہ بنی عدی بن النجار سے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ان سے اولاد جیسا سلوک فرمایا، انہیں کبھی ابو حمزہ کہہ کر بلاتے اور کبھی پیار سے اے میرے بیٹے! کہہ کر مخاطب کرتے، نہ کبھی کسی بات پر ملامت کی اور نہ کبھی مارا، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں اخلاق کے سب سے اچھے تھے، آپ نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جاؤں گا۔ حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا، تو میں چلا گیا، حتیٰ کہ میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا، وہ بازار میں کھیل رہے تھے، پھر اچانک میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میری گدی سے مجھے پکڑ لیا ہے، جب میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے، آپ نے فرمایا:”اے چھوٹے انس ! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں جانے کو میں نے کہا تھا؟” میں نے کہا: جی ہاں اللہ کے رسول ! میں اب جا رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، لیکن آپ نے کبھی بھی مجھ سے نہ یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟اور نہ کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں نہ کیا؟

کم عمری کے باوجود حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اسلامی ریاست کے سیاسی حالات سے الگ نہ تھے۔ غزوہ بدر کے موقع پر آپ کی عمر بارہ سال تھی۔ بطور مجاہد توحصہ نہ لے سکے مگر اپنے مخدوم کی خدمت کرتے رہے۔ اپنے مخدوم کے اخلاق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر اخلاق والے، سب سے زیادہ کشادہ دل اور سب سے زیادہ مہربان تھے۔”

جنگ بدر کے علاوہ آٹھ غزوات میں شرکت کی، جن میں خیبر، طائف اور حنین شامل ہیں۔ فتح مکہ، صلح حدیبیہ، عمرة القضائ، حجة الوداع اور بیعت رضوان کے موقع پر بھی آپ موجود رہے اور بعد میں فتوحاتِ عراق، قادسیہ، تستر وغیرہ میں بھی شرکت فرمائی۔آپ رضی اللہ عنہ انتہائی ذہین، عقلمند، لکھنے پڑھنے والے، سخی، بہادر اور بہترین تیر انداز تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طویل صحبت نے انہیں احادیث رسول کا بڑا حافظ اور راوی بنا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے بصرہ میں 60 سال سے زائد عرصہ تعلیم و تدریس میں گزارا۔ آپ کے شاگردوں میں حضرت حسن بصری، محمد بن سیرین، سعید بن جبیر جیسے تابعین شامل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے حضرت انس نے طویل عمر پائی اور ان کی اولاد اور نسل میں خوب برکت ہوئی۔

مشہور قول کے مطابق آپ کی وفات 93 ہجری میں بصرہ میں 103 سال کی عمر میں ہوئی۔ مرض الموت میں لوگوں نے پوچھا: کیا ہم طبیب کو بلائیں؟ تو فرمایا: طبیب ہی نے مجھے بیمار کیا ہے اور فرمایا مجھے کلمے کی تلقین کرتے رہو یہاں تک کہ اسی حال میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق آپ صحابہ کرام میں سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ہیں۔ آپ کی وفات پر مروّق عجلی نے کہا تھا: آج نصف علم دنیا سے رخصت ہو گیا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔