امریکا اپنے آپ کو خود تباہ کر رہا ہے

ہمارے ایک سینئر صحافی دوست ہیں، گرم سردچشیدہ، صحافت کا طویل تجربہ، ملکی سیاست پر گہری نظر، عالمی سیاست کے شناور ، مختلف قومی، بین الاقوامی ایشوز پر انگریزی، اردو میں لکھتے بھی رہے۔ کتابیں پڑھنے سے انہیں گہری دلچسپی ہے۔ تاریخ ان کا خاص موضوع ہے۔

دو ہزار سولہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے پرائمری الیکشن میں نبردآزما تھے جن میں پارٹی کے رجسٹرڈ ووٹر اپنی اپنی ریاست سے ایک امیدوار کا چنائو کرتے ہیں۔ بظاہر تب ٹرمپ جیسے نان سیریس، مسخرے ٹائپ شخص کے ری پبلکن امیدوار بننے کا کوئی امکان نہیں تھا، الیکشن لڑنا اور جیتنا تو بہت بعد کی بات تھی۔

ایک دن ہمارے وہی سینئر صحافی اپنی شام کی محفل میں کہنے لگے، دعا کریں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کا امیدوار بن جائے اور پھر الیکشن بھی جیت لے۔ ہم سب حیران ہو گئے۔ ممکن ہے کسی نے دل میں سوچا ہو کہ بڑے میاں کو آج کیا ہوگیا؟ احترام سے میں نے پوچھا، سر یہ کیا بات کہہ دی آپ نے؟ وہ مسکرا کر بولے، آپ نے شاید ٹرمپ کے ایجنڈے کو نہیں پڑھا، بعض درمیانے رائٹ ونگ امریکی اخبارات میں ٹرمپ کے خیالات شائع ہوئے ہیں، ان میں امریکی سفید فام لیبر کلاس لوگوں اور اینٹی امیگرنٹس سوچ رکھنے والے نوجوانوں کے لیے کشش ہے۔ ٹرمپ صدارتی امیدوار بنا تو جیت جائے گا۔ ٹرمپ صدر بن جائے گا اور تب اصل کھیل شروع ہوگا۔

کسی نے اس فقرے کی وضاحت کرنے کا کہا تو وہ کہنے لگے، امریکا کے اندر کئی فالٹ لائنز ہیں، بہت سے مسائل ہیں جن پر امریکی میڈیا، وہاں کا جمہوری نظام، سائنسی ترقی، اعلی ریسرچ کرانے والی امریکی یونیورسٹیاں، تھنک ٹینک اور ہالی وڈ کی فلمیں پردہ ڈالے رکھتی ہیں۔ اس رنگین دلکش قالین کے نیچے مگر بہت گند، بہت کوڑا کرکٹ پڑا ہے۔ ٹرمپ جیسا کوئی صدر آیا تو وہ اپنے اجڈپن اور نادانی سے یہ سب کچھ تلپٹ کر دے گا۔ وہ اپنی مقبولیت کی خاطر وہ سیاست کرے گا جس سے سفید فام لوئر مڈل کلاس امریکیوں کو تو کشش محسوس ہو، مگر امیگرنٹس خوار ہوجائیں گے، باہر سے آنے والا برین رک جائے گا۔ فالٹ لائنز بڑھ جائیں گی، ملک کے اندر خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ یوں ایک سامراجی سپر پاور کی تباہی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تباہ نہ بھی ہو، تب بھی وہ اپنے اندرونی خلفشار میں الجھ کر بیرونی دنیا میں پنگے لینے اور کمزور مسلم ممالک پر قیامت ڈھانے سے تو دور رہے گا۔

یہ سب باتیں مجھے صدر ٹرمپ کے پچھلے دور حکومت میں بھی یاد آئیں۔ اب صدر ٹرمپ جب دوبارہ صدر امریکا بنے ہیں، پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جن قارئین کو نہیں معلوم، انہیں بتاتا چلوں کہ امریکی صدارتی نظام میں صدر براہ راست منتخب ہوتا ہے، اسے بہت سے اختیارات حاصل ہیں، مگر بہت سی چیزوں کے لیے اسے سینٹ یا ایوان نمائندگان سے منظوری لینا پڑتی ہے۔ امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) دراصل دو ایوانوں پر مشتمل ہے، ایوان بالا سینٹ جو زیادہ بااختیار اور طاقتور ہے۔ یہ سینیٹر منتخب ہوتے ہیں، ہر ریاست (پاکستانی حساب سے صوبہ سمجھ لیں) خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، اس سے یکساں تعداد میں سینیٹر منتخب ہوتے ہیں۔ نچلا ایوان ایوان نمائندگان کہلاتا ہے۔ اس کی تعداد ریاست کی آبادی کے حساب سے بڑھتی اور کم رہتی ہے۔ صدر چار سال کے لیے منتخب ہوتا ہے جبکہ ایوان نمائندگان صرف دو سال کے لیے۔ ہر دو سال کے بعد الیکشن ہوتا ہے، ہاؤس کا انتخاب ہوتا ہے اور سینٹ کے ایک تہائی اراکین ریٹائر ہوجاتے ہیں، ان کا بھی الیکشن ہوجاتا ہے۔

اس بار ایسا ہوا کہ نہ صرف ٹرمپ صدر بن گئے، بلکہ ایوان نمائندگان میں بھی ری پبلکن پارٹی اکثریت سے جیت گئی اور سینٹ میں بھی ڈیموکریٹ پارٹی اپنی بعض پکی سیٹیں ہار گئی، یوں سینٹ میں بھی ری پبلکنز کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ تینوں جگہ (وائٹ ہاؤس، سینٹ، ایوان نمائندگان) پر کسی ایک پارٹی کا کنٹرول ہو۔ اس بار ایسا ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو روکنا بظاہر ناممکن لگ رہا ہے۔ کسی حد تک مزاحمت عدالتوں کے ذریعے ہورہی ہے۔ صدر ٹرمپ اس پر بھی بہت مشتعل اور ناراض ہیں، ان کا بس نہیں چلتا کہ ڈسٹرکٹ کورٹس کے ججوں کو بدل ڈالیں۔ البتہ انہیں یہ اطمینان ہے کہ سپریم کورٹ تک معاملہ گیا تو وہاں پر قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہے۔ نو میں سے پانچ یا چھ جج کنزرویٹو ہیں یعنی پرو ری پبلکن۔

یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ امریکی سپریم کورٹ میں ججز تاحیات مدت کے لیے بنتے ہیں۔ جب تک وہ خود ریٹائر نہ ہو یا اس کا انتقال نہ ہو جائے۔ یہ اتفاق ہے کہ ٹرمپ کے پچھلے دور صدارت میں دو تین لبرل ججز کسی نہ کسی وجہ سے ریٹائر ہوئے یا فوت ہوگئے تو ٹرمپ کو اپنی مرضی کے کنزرویٹو ججز بنانے کا موقع مل گیا۔

بہرحال آج کا امریکا صدر ٹرمپ کا امریکا ہے، انہیں روکنا بڑا مشکل اور ناممکن ہو چکا۔ وہ اپنی مرضی کی ٹیم بنا کر نہایت جارحانہ انداز میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ٹیرف وار انہوں نے شروع کر ڈالی، پھر اس میں دو تین دھچکے لگے، امریکی سٹاک مارکیٹ ہل گئی، بہت کچھ اوپر نیچے ہوگیا، مجبور ہو کر ٹیرف کو چین کے سوا باقی دنیا کے لئے تین ماہ کا استثنا دے دیا گیا۔ بڑی امریکی کمپنیوں ایپل وغیرہ نے شور مچایا تو ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے موبائل فون، بیٹریوں، سولر سیلز وغیرہ کو بھی ٹیرف سے مستثنیٰ کر دیا۔ صدر ٹرمپ کا ہدف مگر صرف ٹیرف وار اور چین وغیرہ نہیں۔ وہ تارکین وطن کے بھی شدید مخالف ہیں، انہیں مسلسل ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ اب ایک قدم آگے بڑھ کر وہ مختلف امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے غیر ملکی طلبہ کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، انہیں ڈی پورٹ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

صدر ٹرمپ نے ایک بہت خطرناک اور امریکا کے لیے بہت نقصان دہ وار یہ کیا ہے کہ امریکا کی بہترین یونیورسٹیوں کا گھیرائو کر لیا ہے۔ امریکی حکومتیں اپنے فیڈرل بجٹ سے آئیوی لیگ کی بہترین امریکی یونیورسٹیوں کو گرانٹ دیا کرتی تھیں تاکہ وہ اپنے مختلف ریسرچ پراجیکٹس جاری رکھ سکیں۔ یہ وہ ریسرچ ہے جس کی وجہ سے امریکا دنیا میں مشہور اور ممتاز ہوا ہے۔ دنیا کے بہترین دماغ انہی اعلی معیار کی یونیورسٹیوں اور وہاں کے شاندار ریسرچ کلچر کی وجہ سے وہاں جمع ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جان ہاپکنز یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی وغیرہ کی فنڈنگ بند کر دی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی نے تو سرنڈر کرتے ہوئے ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے بہت سے احکامات تسلیم کر لیے۔ اب وہ اپنے ایڈمشن، اپنے ٹیچرز، ریسرچ پراجیکٹس وغیرہ کے حوالے سے حکومتی احکامات پر عمل پیرا ہے۔ امریکا کی مشہور ترین یونیورسٹی ہارورڈ نے البتہ صدر ٹرمپ کے دبائو میں آنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنی داخلی آزادی پر کسی بھی قسم کا کمپرومائز نہیں کرے گی۔ نیویارک ٹائمز نے پندرہ اپریل کو ایک طویل سٹوری شائع کی جس میں بتایا گیا کہ ہارورڈ یونیورسٹی سے چند مطالبات کئے گئے تھے کہ معمولی سا پروفلسطین رجحان رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ کو بھی یونیورسٹی سے نکال باہر کیا جائے۔ ٹیچرز کی ہائرنگ (تقرر)کا تمام ڈیٹا حکومت سے شیئر کیا جائے۔ تمام انتظامی ڈیٹا فیڈرل حکومت سے شیئر کیا جائے جس میں تمام داخلہ لینے والے طلبہ کے رنگ، نسل، آبائی وطن کے بارے میں معلومات شامل ہوں۔ وہ تمام پروگرام بند کر دیے جائیں جن کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ وہ اینٹی اسرائیل ہیں۔ اس طرح کی بعض دیگر ڈیمانڈز ہیں۔ تاہم ہارورڈ یونیورسٹی نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا ہے کہ امریکی حکومت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی پرائیویٹ یونیورسٹی کے معاملات میں دخل دے۔ اس فیصلے کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ ہارورڈ کے طلبہ اور اساتذہ اس پر خوش ہیں۔ تاہم امریکی حکومت نے اس فیصلے کی پاداش میں اسی کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سالانہ فیڈرل گرانٹ بند کر دی ہے جبکہ کئی ریسرچ پراجیکٹس کی فنڈنگ بھی روک دی گئی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی نااہل، نالائق ٹیم کو کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ امریکا اپنے تمام تر ظلم، سامراجی رویوں کے باوجود دنیا میں اسی لیے ممتاز تھا کہ وہاں تحریر، تقریر اور ریسرچ کی آزادی تھی، یونیورسٹیاں بہت اچھا کام کر رہی تھیں، بہترین ریسرچ اور شاندار نت نئی سائنسی ایجادات ہو رہی تھی۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن تھا کہ دنیا بھر سے بہترین دماغ امریکا کا رخ کرتے اور وہاں ان کی پذیرائی ہوتی۔ یوں ہر جگہ سے ہیومن برین اکھٹا کر امریکا ممتاز اور دنیا میں نمبر ون ملک بنا۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات سے یہ سب کچھ پرندوں کے تنکوں والے کسی کمزور گھونسلے کی طرح بکھر رہا ہے۔ جب غیر ملکی آنا بند کر دیں گے تو سفید فام نسل پرست لیبر کلاس امریکا کو نیچے کی طرف کھینچ کر تباہ ہی کرے گی، ان سے بلند پرواز کی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔