خیبرپختونخوا حکومت کا مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل اور ابہامات

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم اشکالات ،اعتراضات ، تحفظات اور مطالبات کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو اپنے وسائل سے متعلق تحفظات ہیں، سندھ کے عوام کو کینال منصوبے پر اعتراضات ہیں،سابقہ فاٹا کی عوام اپنے حقوق کے سلسلے میں مطالبات پیش کررہے ہیںاور اب خیبر پختونخوا کے لوگوں نے معدنیات بل اپنے اشکالات ظاہر کردیے ہیں۔خیبر پختونخوا کی کئی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے صوبائی حکومت کے مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کر دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر تین چھوٹے صوبوں کو بڑے بھائی پر اعتماد کیوں نہیں؟ اور بڑا بھائی کہلانے کا دعویدار چھوٹے بھائیوں کو اہم معاملات پر اعتماد میں لینے میں ناکام کیوں ہے؟ اس بداعتمادی کا انجام کیا ہوگا؟ پاکستان سے محبت رکھنے والے دانشوار چپ کیوں ہیں؟ پاکستان صرف اسلام آباد اور لاہور کا نام نہیں ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، حقوق تسلیم اور وسائل سب میں تقسیم کرنے ہوں گے، تب ہی ملک کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔

خیبرپختونخوا کے متنازع بل کے چند صفحات کا ہم نے بھی مطالعہ کیا، بل میں کئی جھول ہیں یا جان بوجھ کر رکھے گئے ہیں، اس پر آگے چل کر بات کریں گے۔ اس وقت اس بل کی مخالفت اے این پی سے لے کر جے یو آئی تک نے کر دی ہے، اب یہ بل پاس ہوگا یا نہیں؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے البتہ ملک کے استحکام کے لیے اس پر تعمیری بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ قبائلی عوام کی رائے اور مطالبات کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے ، کیونکہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے اس کے حوالے سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے، اس کا ذکر بھی ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ بل کا مقصد صوبے میں معدنیات کے شعبے کو جدید، شفاف اور ہم آہنگ بنانا ہے۔ وائٹ پیپر کے مطابق بل کے ذریعے معدنیات سے متعلق قوانین کو وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ ہم آہنگ بنایا جائے گا جبکہ بین الاقوامی اور ملکی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اہم اقدامات کیے جائیں گے۔ وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ لیز کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کے لیے لائسنس کی مدت کم کرکے تین سال کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ فوری اور غیر جانبدار انصاف کی فراہمی کے لیے ایک آزاد اور بااختیار اپیلٹ ٹریبونل بھی قائم کیا جائے گا۔ محکمہ معدنیات کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایک جیولوجیکل ڈیٹا بیس تیار کرے تاکہ زمین میں موجود معدنی ذخائر کی سائنسی بنیاد پر معلومات حاصل کی جا سکیں۔ غیر قانونی کان کنی کے خلاف سخت کارروائی کے لیے ایک خصوصی فورس قائم کی جائے گی جبکہ مشینری کی ضبطی اور سزاؤں کے ذریعے غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کی جائے گی۔

یہ حکومتی وائٹ پیپر کے اہم نکات تھے۔ بل کے مطابق سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ضم شدہ اضلاع ان معدنیات سے پانچ سال تک فوائد حاصل نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیوں فائدہ نہیں اٹھاسکتے؟ قبائلی علاقے جن کو ان کی رائے لئے بغیر خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا ہے، اکثر معدنیات انہیں علاقوں میں ہیں، انہیں پانچ سال تک ان معدنیات سے محروم رکھنے کی کیا منطق بنتی ہے؟ دوسری بات سات سال گزرنے کے باوجود یہ ضم شدہ قبائلی علاقے سالانہ سو ارب روپے سے محروم کیوں ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا؟ سابقہ فاٹا میں ترقیاتی کام کیوں نہیں ہو سکے؟ تیسری بات جب مائینز اینڈ مائنرلز کے حوالے سے پہلے ہی ایک بل موجود ہے تو دوسرے بل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ چوتھی بات اٹھارویں ترمیم کے بعد جس میںصوبائی خود مختاری کو اہم قرار دیا ہے تو پھر کھربوں ڈالرز کے معدنیات میں صرف پچاس کروڑ تک کے لائسنس صوبائی حکومت دینے کی مجاز ہوگی، کا کیا مطلب ہے؟ کہیں بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے کچھ عالمی طاقتوں کو ان علاقوں میں ایک بار پھر انٹری تو نہیں دی جا رہی، اگر غیر ملکی سرمایہ کاری سے مراد پوری دنیا ہے تو پھر چین روس سمیت دیگر ممالک کے حوالے سے خاموشی کیوں ہے؟

ایک بات اور ۔مائنز اینڈ منرلز بل میں یہاں کے رئیر معدنیات کو ”سٹریٹجک” قرار دیا جارہا ہے، ان مخصوص معدنیات کا تعین کون کرے گااور ان کے انتظامات کون دیکھے گا؟ اور اس سے حاصل ہونی آمدن میں صوبے کا حصہ کتنا ہوگا؟ کچھ تحریر نہیں ہے۔ وائٹ پیپر میں خیبر پختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی کان کنی پر سخت کارروائی کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی نوے فیصد اور سابقہ فاٹا میں تقریباً ننانوے فیصد زمینیں اور پہاڑ قبائلی عوام کی ملکیت ہیں، ان کو اپنی زمینوں اور پہاڑوں میں کان کنی سے روکنے سے کیا ریاست مستحکم ہوگی؟ ان زمینوں اور پہاڑوں سے حاصل ہونے والی رائلیٹی میں ان کا کتنا حصہ ہوگا؟ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بلوچستان میں نظام سرداری تھا ، جہاں چند سرداروں کو مراعات دے کر خوش کیا جاتا رہا ہے، خیبرپختوخوا بالخصوص سابقہ فاٹا میں اس طرح نہیں ہے، ہر شخص ہر قبیلے کی زمین اور پہاڑ معلوم ہیں، ایسے میں کسی بھی متنازعے بل اور فیصلے سے حالات نیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔

شایدانہی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے جے یو آئی ف اور اے این پی نے اس بل کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ لازم ہے کہ صوبائی حکومت اور وفاق اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، صوبائی خود مختاری کو نہ ختم کیا جائے، کم ازکم اربوں ڈالرز کی معدنیات کے لائسنسوں میں صوبائی حکومت کو بھی بڑے لائسنس جاری کرنے کا اختیار دیا جائے، قبائل کو ان کی زمینوں کے حقوق واضح کئے جائیں۔ البتہ چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لئے نظام ضرور ہونا چاہیے۔بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر امریکا کو خوش کرنے کے بجائے روس، چین سمیت کئی ممالک کے ساتھ شراکت کی جائے، اور ہر لائسنس اوپن نیلامی کے ذریعے دیا جائے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو ان معدنیات میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے۔ حکومت اگر چاہے تو بہتری کے لیے بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ صوبے کے عوام کے حقوق اور جذبات کا احترام کیا جائے ۔خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت کو صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کا لحاظ رکھنا چاہیے جنہوں نے مسلسل تین انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے۔قومی سطح پر بھی حکومت اور مقتدر اداروں کو اہم منصوبوں پر تمام اسٹیک ہولڈز کا اعتماد میں لینے کی کوشش کرنی چاہیے، دہشت گردی سے لے کر کینالز منصوبے اور منرلز بل تک ہر معاملے میں وفاق اور صوبوں کا موقف الگ لگ کیوں ہے،سبھی قو می حلقے اس پر بھی ذرا سوچیں، کیونکہ یہ پاکستان کے استحکام اور سا لمیت کا مسئلہ ہے۔