غزہ کی پکار۔ ہم پہ ہمیشہ چرخ کی گردش رہے یہ کیوں؟

مسجد اقصیٰ وہی مقام ہے جہاں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، حضرت عمر اور صلاح الدین ایوبی نے بے گناہوں کا خون بہائے بغیر اسے فتح کیا تھا۔ یہ محض فلسطینیوں کا نہیں، پوری امت کا مسئلہ ہے۔ ایک وقت تھا جب دنیا دو بڑی سپر پاور میں بٹی ہوئی تھی امریکی بلاک اور کمیونسٹ بلاک۔ آزادی فلسطین کے ساتھ کھڑے ممالک کا تعلق کمیونسٹ بلاک سے تھا اور دائیں بازو والے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ کھڑے تھے۔ روس کو افغانستان میں شکست ہوئی اور وہ تقسیم ہوگیا تو دنیا میں عملی طور پر ”ون پاور ” رول نافذ ہوگیا۔

ان تمام ممالک کو جہاں سے فلسطینی کاز کو حمایت ملتی تھی ختم کر دیے گئے، کیا لیبیا، کیا شام اور کیا لبنان اور آج فلسطین تنہا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں ہونے والی 1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس یاد آتی ہے جب پہلی بار فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا گیا، یاسر عرفات کو اور پی ایل او کی نمائندہ حیثیت کو مانا گیا اور وہ تھی ابتدا ایک آزاد اسلامک بلاک کی، وہ دور تھا تھرڈ ورلڈ اور غیر جانبدار تحریک کا جس میں سب سے توانا آواز تھی ذوالفقار علی بھٹو کی جو امریکا اور مغربی طاقتوں کو قابل قبول نہیں تھی اور اسے راستے سے ہٹانے کے پلان کے تحت پھانسی دی گئی، ساتھ ہی وہ ساری طاقتور آوازیں شاہ فیصل، کرنل قذافی، یاسر عرفات اور دیگر کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ عرب ممالک نے تیل کی طاقت کا استعمال کر کے دنیا کو خبردار کر دیا تھا۔

اب عالم یہ ہے کہ عرب حکمران اپنے مفادات کے لیے اسرائیل سے تعلقات قائم کرتے، تجارتی معاہدے کرتے اور فلسطینیوں کو ”حقیقت پسندی” کا مشورہ دیتے ہیں۔
جس گھر کی اینٹ اینٹ مرے خوں سے تر ہوئی
مجھ کو قبول آج وہی گھر نہ کر سکا

کیا حقیقت پسندی یہ ہے کہ اپنی سرزمین چھوڑ دو، اپنے گھروں کو راکھ ہوتا دیکھو، اپنی مسجدوں کو شہید ہوتے دیکھو اور خاموش رہو۔ ہماری افواج طاقتور ہیں۔ ہمارے پاس دور مارمیزائل اور ایٹمی ہتھیار ہیں، لیکن ہم ایک زخمی بچے کی آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ فلسطینی بچہ دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو بموں کی گونج، گولیوں کی آواز اور ماں کی سسکیوں کے سائے میں۔ مائیں بچوں کو لوریاں دینے کی بجائے شہادت کی دعائیں دیتی ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کتوں بلیوں کے خراش پر آسمان سر پر اٹھانے والی مغربی این جی اوز غائب ہیں۔
اسی لیے تو اٹھائی تھی ریت کی دیوار
کہ لطف دشت کا دیں گے یہ بام و در میرے

ہر دن ایک نئی ماں اپنے جگر گوشے دفن کرتی ہے اور ہر رات موت کے سائے میں زندگی کی سانسیں گنتی ہے۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ایک بچہ اپنے ماں باپ کے لاشے کے ساتھ تین دن ایک ملبے کے نیچے پڑا رہے؟ فلسطین میں یہ سب روز ہوتا ہے۔ وہاں بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ مارے جائیں تو چیخنا نہیں، صبر کرنا ہے، کیونکہ تمہارے آنسو دشمن کو خوش کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی ٹھیکیدار تنظیمیں صرف مذمتی بیانات دے کر خاموش ہو جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر عالمی ادارے صرف ”تشویش” ظاہر کرتے ہیں، لیکن فلسطین کے بچوں کا خون کسی قرارداد سے نہیں رکتا۔ اپنے ناجائر قیا م سے اب تک اسرائیل اقوام متحدہ کی 70سے زائد قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکا ہے۔ اس کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
پلک سے ٹوٹ کے بکھرے ہیں اشک ہونٹوں پر
مجھے ہی زہر چٹاتے ہیں یہ گہر میرے

غزہ میں جنیوا قوانین کو پامال کرتے ہوئے اسپتالوںاور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایاگیا۔ اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے گئے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے گئے۔ بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔ نئی تیار کردہ ادویات کے بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔

بش دور میں سب سے زیادہ امداد اسرائیل کو دی گئی۔ امریکا کے بیشتر خیراتی ادارے اپنی رقوم اسرائیل کو بھیجتے ہیں۔ پھر وہ رقوم فلسطینیوں کے استحصال میں خرچ کی جاتی ہیں۔ اسرائیلی تنظیم ”عطیرت کوہنیم” امریکا سے تعلیم کے فروغ کے لیے امداد رقم اکٹھی کرکے عربوں کی جائیداد خرید کر یہودیوں کو مفت فراہم کرتی ہے۔ ”امریکن فرینڈز آف کوہنیم” ہر سال لاکھوں ڈالر امریکا سے جمع کرکے فلسطینی زمینوں پر تعمیرات کرتی ہے۔ 1970ء سے اب تک یہ تنظیم اربوں ڈالر اسرائیل کو فراہم کر چکی ہے۔ تنظیم کے کارکن غریب فلسطینیوں کے پاس جاکر انہیں زیادہ سے زیادہ قیمت دے کرمکان خرید کر اسرائیلیوں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ اسی لیے ہر فلسطینی سوال کرتا نظر آتا ہے کہ:
مسلم کا خون پانی کی صورت بہے یہ کیوں؟

فلسطینی بچے دنیا کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ غیرت کیا ہوتی ہے، ایمان کیا ہوتا ہے اور قربانی کسے کہتے ہیں۔ وہ اپنے ٹوٹے ہوئے کھلونوں، جلے ہوئے بستوں، شہید باپ کی تصویر کے ساتھ جیتے ہیں، لیکن ان کی آنکھوں میں آج بھی آزادی کا خواب ہے۔ ایک بچی کی ویڈیو وائرل ہوئی، جو ایک ملبے کے ڈھیر پر کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی، ہم مر جائیں گے، لیکن مسجد اقصیٰ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
خوں تک اچھال آئے ہیں رخسار صبح پر
اک دل نشیں سے خواب کی تعبیر کے لیے

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو فلسطین کے بارے میں کیا سکھا رہے ہیں؟ ہم نے ان کے دلوں میں اقصیٰ کی محبت کا بیج بویا ہی نہیں۔ سچ بولیں، مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، کیونکہ جو ظلم کے خلاف نہیں بولتا، وہ ظالم کا ساتھی ہوتا ہے۔ فلسطین کے بچوں کی پکارسنیں، اس سے پہلے کہ ہماری سماعتیں بھی مر جائیں۔
ہم پہ ہمیشہ چرخ کی گردش رہے یہ کیوں

آج فلسطینیوں اور غزہ کا نام لینا بھی مغربی دنیا میں جرم ہے۔ آزادی صحافت مغرب میں جتنی بے نقاب اس معاملے پر ہوئی ہے تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ امریکا میں جمہوریت ہی ختم کر دی گئی، ہم غزہ کے ساتھ ہیں، جس انداز میں طالب علموں کو حمایت کرنے پر ملک بدر کیا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی مگر اس سب کے باوجود مغرب میں جتنے بڑے مظاہرہ ہوئے ان کے مقابل پاکستان سمیت اسلامی عرب ممالک بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
اپنے ہی خون کے رشتوں نے عنایت کی تھی
اور تھے کون مجھے زہر پلانے والے

کیا کوئی ہے جو ان مظلوموں کی حمایت کرے یا صرف قراردادوں کی کاغذی کشتیاں فلسطینیوں کی پکار کا جواب بنا کر خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں گے؟!