غزہ میں بڑھتے ہوئے مظالم اور مسلم امہ کا اضطراب

غزہ میں دہشت گرد ریاست اسرائیل کے مظالم مسلسل جاری ہیں۔ ظلم کی انتہا ہے کہ عالمی قوانین، مروج جنگی آداب اور انسانی شرف کو یکسر پامال کرتے ہوئے اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس وقت غزہ میں ایک بھی اسپتال باقی نہیں رہا۔

عالمی مجرم نیتن یا ہو نے ٹرمپ ٹولے کی حمایت سے خوف ناک بمباری کو نسل کشی کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ خاندانوں کو مٹایا جا رہا ہے۔ غزہ میں ایک کار پر حملے کے نتیجے میں چھ سگے بھائی ایک ساتھ ہی شہید کر دیے گئے۔ اس وقت پانی کی بندش اور خوراک کے تعطل سے اہلِ غزہ کا دم لبوں پر ہے۔ شدید مجبوری کی حالت میں کوئی جائے پناہ نہ ملنے کی وجہ سے سینکڑوں خاندان جن کی اکثریت عورتوں، بچوں اور زخمیوں پر مشتمل ہے، صحرائے سینا کی جانب ہجرت پر مجبور کر دیے گئے ہیں تاہم اس وقت بھی لاکھوں افراد غزہ کی مقتل گاہ میں زندگی اور موت کے درمیان عزیمت کی مثال بن کر صبر و استقامت، سکون و ثبات اور ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنے عقیدے اور اپنی سرزمین کے ساتھ اپنے ان منٹ رشتے کو نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اہلِ غزہ کے اس کردار نے پوری امتِ مسلمہ کو جھنجوڑ ڈالا ہے تاہم جہاں تک عالم اسلام کے حکمرانوں کا تعلق ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ غزہ میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم، مسلم حکمرانوںکی مجرمانہ خاموشی اور مسلم امہ میں پھیلتا ہوا اضطراب آنے والے دنوں میں کسی بڑی تبدیلی کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے دہشت گرد اسرائیل کے ساتھ اٹھارہ ماہ طویل جنگ لڑ کر ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل ناقابلِ تسخیر ریاست نہیں ہے۔ اگر چند مزاحمت کار تنظیمیں محدود وسائل اور مختصر افرادی قوت کے ساتھ اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہیں تو اسرائیل کے چاروں اطراف میں موجود عرب ریاستیں بھی اسرائیل سے فلسطینیوں کے قتلِ عام، نسل کشی اور دین و عقیدے کے مطابق اپنے مسلمان بھائیوں کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کر سکتی تھیں لیکن گزشتہ ستر برسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ مقابلے کی تیاری سے زیادہ اپنے عوام کو بزورِ قوت دبانے میں زیادہ دلچسپی لی ہے، اسی طرح اسرائیل کے مقابلے میں تیاری کی بجائے عرب حکمرانوں کو ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کا خوف لاحق رہا ہے اور ایران کی تما م تر توجہ کا محور بھی دراصل عرب ملکوں کو فتنہ و فساد کا شکار بنانے پر مرکوز رہی ہے۔ عرب اور ایران کے درمیان رسہ کشی کے اس دورانیے میں صرف ترکی ایسی ریاست ہے جس نے مقابلے کی کسی حد تیاری کر رکھی ہے اور یہ اسی تیاری کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ترک افواج شام میں اپنے مستقر قائم کر رہی ہیں۔ شام میں ترکیہ کی بڑھتی ہوئی قوت نے اسرائیل ہی نہیں ان عرب ممالک کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے جن کے حکمرانوں نے گزشتہ کئی دھائیوں سے اپنے اقتدار کا کھونٹا مضبوط بنانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ ظلم پر خاموشی اختیار کر لینا مسلم طرزِ حکمرانی کا طریقہ نہیں ہے۔ جو حاکمِ وقت مظلوم کا ساتھ نہ دے، ظلم کو خاموشی سے برداشت کرلے اور ظالم کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائے اسے حکمرانی کی مسند زیب ہی نہیں دیتی۔ ایسے نالائق اور بزدل حکمرانوں کی بخوشی اور برضا اطاعت کرنے والے اور ان کے اقتدار کی چھاؤں میں رہ کر دنیا کے مزے لوٹنے والے طبقات سے قیامت کے روز یقینا سوال کیا جائے گا کہ انھوں نے روتے بلکتے بچوں، فریاد کرتی خواتین اور معذور و بے بس مردوں کی مدد کے لیے کیا کردار ادا کیا تھا؟ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے اس موقع پر لوگوں کا ایک گروہ اپنے لیڈروں، حاکموں اور سرداروں کو اپنی گمراہی کا مرتکب قرار دے کر کہے گا کہ ان ہی کی وجہ سے ہم راہِ راست سے ہٹ گئے۔

اس وقت اسرائیل کی دہشت گردی، سفاکیت اور غیر انسانی رویے پر یورپ اور افریقہ تک انسانوں کا ایک عظیم جمِ غفیر لعنت و ملامت کر رہا ہے۔ مسلم امہ ہی نہیں بلکہ امریکا، یورپ اور افریقہ کے لوگوں کو بھی یقین ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے اور صہیونی نسل کشی کے مرتکب ہیں جبکہ امریکا اس نسل کشی کا ساتھ دے رہا ہے، اس کے ساتھ ہی لوگوں کی بڑی تعداد یہ بھی جان چکی ہے کہ مسلم امہ کے حکمران اس ظلم کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہے لہٰذا جہاں اسرائیل کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت اور غیظ و غضب کا ایک طوفان اٹھ رہا ہے وہیں انسانوں کی عظیم آبادی میں مسلم لیڈر شپ کے خلاف بھی حقارت کے جذبات قوی ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس ا مر کی ہے کہ عالم اسلام کے حکمران ہوش کے ناخن لیں۔ اسرائیل اور امریکا کو خدا کا درجہ دینے کی روش ترک کر دیں اور باہمی اتحاد کو بروئے کار لا کر مسلم اخو ت کی قوت کو منظم کرنے کی کوشش کریں۔

اب تک مسلم ریاستوں میں سے کسی ایک ریاست نے بھی اسرائیل کے خلاف کھل کر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ترکیہ اگرچہ شام کی سرحد میں داخل ہوکر اسرائیل کے قریب تر پہنچ چکا ہے لیکن وہ عرب ریاستوں کے تعاون کے بغیر غزہ کے مسئلے میں کھل کر مداخلت نہیں کر سکتا اور یہی صورت حال پاکستان کو بھی درپیش ہے جو پہلے ہی بھارت جیسے توسیع پسندانہ عزائم کے حامل دشمن اور افغانستان کی صورت میں پشت پر وار کے لیے تیار ہمسائے سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے، تاہم حالات و واقعات کی روشنی میں بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان ایک محدود نوعیت کی جھڑپ قرین قیاس ہے جس سے دونوں ریاستوں کو اپنے مسلز آزمانے کا موقع مل سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں اگر ترکیہ اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو سبوتاژ کرنے اور اس کی دہشت گرد افواج کو ایک پٹخنی دینے میں کامیاب ہوگیا تو یقینا وہ شرق و غرب کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بن جائے گا۔ دوسری جانب خطے میں بے شمار مسائل کا سبب بننے والے ایران سے بھی عرب ریاستیں خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران، امریکا مذاکرات کے نتائج خواہ وہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں نکلیں یا ناکامی کی، بہرحال عرب ریاستوں کے لیے دونوں ہی صورتوں میں خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ان کی دفاعی کمزوری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب ریاستیں ہوش کے ناخن لیں۔ وہ سیاسی و اقتصادی مفادات پر دفاعی مقاصد کو ترجیح دیں اور قرآنِ کریم کے حکم کے مطابق بقدرِ استطاعت دفاع کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں۔ یہی عمل ان کی بقا کا ذریعہ بن سکتا ہے اور ان کے معاشی، تجارتی، اقتصادی اور سیاسی مفادات کے حقیقی تحفظ کا ضامن ہو سکتا ہے۔