آج سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کالم کا آغاز عالمی تجارتی جنگ سے کروں یا ان پاکستانی لبرل دانش فروشوں کے نیچ پن پر، جنہیں علمائے کرام کے فتوی جہاد سے آگ لگی ہوئی ہے، جو عملاً اپنے آپ کو یہودیوں اور امریکا کا ایجنٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، یا غزہ میں جاری تباہی پر لکھوں، یا کراچی میں ہونے والے ملین مارچ پر، جن میں کراچی کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے ثابت کیا کہ اہل کراچی کے دل پی ایس ایل سے زیادہ غزہ کے مسلمانوں کیلئے دھڑکتے ہیں۔ سلام ساکنان کراچی! اللہ آپ کے ایمان کو مزید تقویت دے۔
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ تم میں جو شخص خلاف شریعت کام کو دیکھے توآگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد (مخالفت) کرے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو (کم از کم) دل سے اسے برا جانے اور یہ (دل میں برا جاننا) ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
ایک جانب غزہ خون میں ڈوبا ہوا ہے، دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس نے دنیا کو عالمی تجارتی جنگ میں عملاً دھکیلا دیا ہے، وہ ان مظلوم بے کس، بے یارو مددگار لوگوں کو ان کی سرزمین سے نکال کر کہیں اور بسانے کی تیاری کر رہا ہے۔ کئی عرب ممالک اور شاید ترکیہ بھی اس منصوبے کے خاموش حمایتی نظر آ رہے ہیں۔ رہی بات پاکستان کے حکمرانوں کی، شاید انہیں ٹاسک دیا گیا ہے کہ عوام کو نت نئے مسائل میں الجھا کر رکھو، تاکہ تم پر دباو نہ بنے۔ شاید چند سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل جائے۔ یہ سب واقعات جو دنیا میں اور خطے اور پاکستان میں جاری ہیں، کیا یہ اتفاقات ہیں؟ کہیں یہ کھیل اور ڈراما بیت المقدس کے گرانے کیلئے تو شروع نہیں کیا گیا؟ ہر ایک کو کردار دیا گیا ہو کہ تم نے ڈرامے میں یہ کردار ادا کرنا ہے۔ حکمرانوں کو الگ، سیاسی جماعتوں کو الگ اور عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس لوڈشیڈنگ اور چند مسلم ممالک میں فحاشی اور عریانی کے فروغ کیلئے میوزیکل کنسرٹ۔ سب ان چکروں میں پڑے رہیں۔ عرب سے عجم تک ہر طرف موت کا سناٹا ہے اور اس ماحول میں اگر پاکستانی علماء نے حکمرانوں کو غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے توبکواس کی جارہی ہے کہ یہ جرنیلوں کے ایجنٹ ہیں۔ کچھ شرم اور حیا ہوتی ہے، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ لبرل طبقہ جس کا نشانہ ہمیشہ اسلام، مدرسہ اور علماء رہے ہیں، باز نہیں آئے گا۔
کئی لبرل دانش فروش لکھ رہے ہیں کہ غزہ تباہ ہو گیا، اب علماء کو خیال آرہا ہے کہ جہاد فرض ہوگیا ہے، ایک نے تو یہ بھی لکھ دیا کہ میں ان فتوی دینے والوں کو اپنے خرچے پر غزہ بھیجنے کو تیار ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا علماء توجہ دلانے کا حق بھی ادا نہ کریں؟ اگر اسلامی ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کی فکر نہ کریں تو کیا انہیں ان کی ذمے داریاں یاد دلانا غلط ہے؟
سینئر صحافی انصار عباسی نے لکھا ہے کہ عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس صورتحال میں ساری ذمہ داری صرف مسلمان ممالک کی حکومتوں کی ہے، تو یہ بات بھی درست نہیں۔ اگر مسلمانوں کے حکمران فلسطینیوں کی مدد کرنے اور اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر کیا عام مسلمان بھی خاموش ہو کر بیٹھ جائیں؟ اپنے آپ کو بے بس ثابت کر کے اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر ساری ذمہ داری ڈال کر، عام مسلمانوں کا وہ کچھ بھی نہ کرنا جو ان کے بس میں ہے، کیا اس ظلم میں اسرائیل کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں؟ ایک عام مسلمان چاہے اس کا تعلق پاکستان سے ہو، سعودی عرب یا ترکیہ سے، یا وہ امریکا اور یورپ کے کسی ملک میں بیٹھا ہو، وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے کیا ایک ایسے جہاد کا حصہ نہیں بن سکتا جس کا اسرائیل کو نقصان بھی ہو اور اپنے آپ کو یہ احساس بھی ہو کہ کم از کم میرے بس میں جو ہے وہ میں عملی طور پر کر رہا ہوں۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی جانب سے اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور بچوں، عورتوں، بوڑھوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ نوجوان خود بھی بائیکاٹ کر رہے ہیں اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اور اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں۔ یورپ سے لیکر افریقہ تک نوجوان فعال ہیں، اگر کہیں سناٹا ہے تو عرب ممالک میں، اگرچہ عرب ممالک میں بھی اس عوام کے ایک خاطر خواہ طبقہ نے اسرائیلی مصنوعات، اسرائیل نواز امریکی برینڈز، فرنچائزز، فوڈ چینز وغیرہ کا بائیکاٹ کیا ہے، جو خوش آئند ہے۔
رہی بات مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی، تو وہ عملاً کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں، الٹا اسرائیل کو تسلیم کرنے اور مظلوم فلسطینیوں کو شام، اردن اور مصر میں بسانے کے صہیونی امریکی منصوبے کے خاکے میں رنگ بھرنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں عام مسلمان اپنے ایمان کے تحفظ کیلئے اگر اسرائیل کو مالی طور پر نقصان پہنچانے کی خاطر اسرائیل نواز امریکی کمپنیوں کی مصنوعات، اشیائ، فوڈ چینز، کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا بائیکاٹ کر کے جہاد کی اس صورت میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے، تو ان لبرل دانش فروشوں کو کس نے حق دیا ہے کہ اپنے غلیظ اور مفاد پرستانہ خیالات دوسروں پر مسلط کریں؟ مسلم عوام کی جانب سے اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ تو ان کو نظر آتا ہے، مگر کیا اسرائیل جو مظلوم فلسطینیوں کا خون مسلسل بہا رہا ہے، وہ ان کو نظر نہیں آرہا؟
آخر میں ایک مودبانہ گزارش علمائے کرام سے بھی ہے، آپ کا فتوی بالکل درست اور دنیا کے دوارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے، حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اسلام کی خاطر اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے جہاد کا جذبہ اور عزم رکھنے والے جوانوں کی کمی نہیں ہے مگر مشکل یہ ہے کہ آج جہاد پر جانے کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں، اسلامی ممالک کی سرحدی جکڑ بندیوں کے باعث مسلمان نوجوان چاہتے ہوئے بھی فلسطین نہیں پہنچ سکتے، وہ امداد لے کر جانے کے لیے بھی اسرائیل اور آس پاس کی اسرائیل نواز حکومتوں کی اجازت کے محتاج ہیں۔ ایسے میں جہاد کی عملی شکل کیا ہوگی؟ جب حکمران جن پر فتوی کے مطابق جہاد فرض ہو چکا ہے، اپنے اس فرض سے غفلت یا بے بسی کا اظہار کریں تو مسلمان عوام کیا کریں؟ اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے۔ یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ اور فلسطینیوں کی مالی امداد تو کسی نہ کسی درجے میں ہورہی ہے مگر موجودہ حالات میں ہر مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے، ایسے میں عملی جہاد کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ مسلمان فلسطینی بھائیوں کی مدد نہیں کرنا چاہتے، مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان کی مدد کو پہنچ نہیں پا رہے۔ اس لیے مسلم زعماء کو مسلمانوں کی بے حسی کا رونا رونے کی بجائے فلسطینی مسلمانوں تک پہنچنے کے راستے تلاش کرنے چاہئیں اور مسلم نوجوانوں کی ان راستوں کی طرف رہنمائی کرنی چاہیے۔