تیسری اور آخری قسط:
اب ہم قارئین کی سہولت کے لیے تمام مستند دارالافتاؤں کے جوابات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
”دس ہزار قرض لینا اور ایک مہینہ بعد بارہ ہزاردوسو پچاس واپس کرنا، قرض پر نفع کا لین دین ہے، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائزوحرام ہے”۔
”کمپنی کا ایئر ٹائم کی بطورِ کموڈیٹی خریدو فروخت چوں کہ قرض پر نفع لینے کا ایک حیلہ ہے، جس کا اختیار کرنا شرعا جائز نہیں؛ کیوں کہ اس کا مقصد وہی قرض پر نفع لینا ہے، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے”۔
‘قرض دے کر اس پر اضافی نفع لینا اور اس کو فائنانسنگ کا نام دینا قطعا درست نہیں”۔ ”شریعت میں تجارت کی جائز ایسی کوئی صورت نہیں ہے کہ قرضہ دے کر از خود مقروض کو خریدار اور پھر بائع شمار کرکے اضافی رقم کو نفع تصور کیا جائے”۔
”اس ایپلی کیشن کے پیچھے پاٹنر کا کموڈٹی کی خریدوفروخت کرنا ایک فرضی صورت ہے اور مقروض کو دھوکہ دینا بھی ہے”۔
”اس کے علاوہ ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے بطور جرمانہ جو خیراتی عطیہ پچھتر روپے فی یومیہ وصول کیا جاتا ہے یہ بھی ناجائز ہے کہ یہاں قرض کے ساتھ تاخیر کی وجہ سے خیراتی عطیہ دوسری شرط ہے۔ اس طرح مشروط خیراتی عطیہ جبراً لینا جائز نہیں”۔
”یہ بیع عینہ ہے جو کہ سود کا حیلہ اور ناجائز ہے۔ اس عمل کو فائنانسنگ کا نام اس لیے دیا جارہا ہے کیوں کہ اس میں بیع عینہ کو اختیار کیا گیا ہے جو کہ سودی نفع حاصل کرنے کا تجارتی طریقہ ہے”۔
”یہ محض زبانی کلامی ایک دعویٰ اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں، اس لیے کہ ”ائیر ٹائم” موبائل کمپنیاں فراہم تو کرتی ہیں واپس خریدتی نہیں ہیں، مثلاً اگر موبائل فون میں سو روپے کا ایزی لوڈ کروایا جائے تو ٹیکس وغیرہ کی کٹوتی کے بعد وہ کم و بیش نوے روپے میسر ہوتا ہے، پھر اس نوے روپے کو کسی جگہ کیش نہیں کرایا جاسکتا کہ کمپنی موبائل بیلنس کی شکل میں نوے روپے واپس لے کر اس کے بدلے نقد رقم دیدے، البتہ اپنے کسی عزیز دوست کو یہ بلینس شئیر کرکے اس سے نقد رقم وصول کی جاسکتی ہے، لیکن اس میں بھی کٹوتی ہوجاتی ہے۔ اس طرح بیلنس کے خریدار ناپید ہیں، لہذا ائیر ٹائم فراہم کرنے اور پھر اس کو مارکیٹ میں بیچنے کا دعویٰ محض زبانی کلامی بات ہے، حقیقت یہی ہے کہ کمپنی اکاؤنٹ میں رقم ہی فراہم کرتی ہے۔ اگر تسلیم کرلیا جائے کہ کمپنی دس ہزار روپے قرض نہیں دیتی بلکہ دس ہزار روپے کا ”ائیر ٹائم” ہی دیتی ہے اور مستقرض یہ ”ائیر ٹائم” اسی کمپنی کو ہی دے کر ان سے رقم وصول کرلیتا ہے تو یہ بیع عینہ کی وہ صورت ہے جس کے مکروہ تحریمی میں کسی کا اختلاف نہیں اور امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ یہ سود خوروں کی ایجاد کردہ بیع ہے”۔
قارئین غور فرمائیں کہ کس طریقے سے پاکستانی معاشرے میں چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن کو رائج کیا گیا ہے، اس کو استحکام دینے کے لیے مختلف عنوانات دیے گئے مگر جب پاکستان بھر کے مستند دارالافتاؤں سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس ایپلی کیشن سے قرضہ لینے کو سود قرار دے کر ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے اس طرح کی کمپنیوں کو سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے لائسنس فراہم کیا گیا؟ کیسے اس کمپنی کی شریعہ ایڈوائزی کمیٹی نے اس قرضہ فراہم کرنے کے معاملہ کے جائز ہونے پر فتویٰ جاری کیا؟ کیا اس کمپنی کے شریعہ ایڈوائزی کمیٹی کے سامنے پاکستان بھر کے مستند دارالافتاؤں کا مؤقف نہیں؟ ہم امید کرتے ہیں کہ متعلقہ ادارے اور صاحبانِ علم ان تمام گزارشات پر غور فرمائیں گے۔ نیز ہم عوام الناس سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ کوئی بھی معاملہ انجام دینے سے پہلے پاکستان کے مستند دارالافتاؤں سے رجوع کریں تاکہ وہ غیر شرعی معاملات سے بچ سکیں۔
آخر میں ہم قارئین کی خدمت میں قرض سے متعلق علماء کے ارشادات پیش کرتے ہیں۔ قرض (دَین) سے متعلق شریعت کے واضح احکامات موجود ہیں جن کا خلاصہ حضرت مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب دامت برکاتہم اپنے مضمون ”سود اور اس کے متعلقہ مباحث” پہلی قسط، جمادی الاخری ١٤٣٥ھ ماہنامہ بینات” میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
٭”قرض ایک معاوضاتی معاملے کے بجائے ایک تبرعاتی معاملہ ہے، جس میں عبادت کا پہلو غالب ہے۔
٭قرض دینا صدقہ کرنے سے بھی بڑھ کر عبادت قرار دیا گیا ہے۔
٭قرض لینا حاجت پر مبنی ہے، یعنی قرض ضرورتِ شدیدہ کی بنا پر ہی لیا جانا چاہیے۔
٭قرض لے کر لوٹانا حقوق العباد میں سے ایک بہت اہم حق ہے، حتیٰ کہ ایک موقع پر اس کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والے شخص پر بنی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جنازہ پڑھانے سے بھی انکار فرمادیا۔ اور قرض کی ادائیگی کے باوجود ادائیگی کی استطاعت رکھنے کے ٹال مٹول کرنے کو ظلم فرمایا گیا ہے، جو کہ قیامت میدانِ حشر میں اندھیریوں کا سبب ہوگا۔”
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ”سود پر تاریخی فیصلہ” میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
”موجودہ سیکولر سرمایہ داری نظام اور اسلامی اصولوں کے درمیان ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام میں قرضوں کا مقصد صرف تجارتی ہوتا ہے تاکہ قرضوں کے ذریعے قرض دینے والے ایک متعین نفع کما سکیں۔ اس کے برخلاف اسلام قرضوں کو نفع کمانے کا ذریعہ قرار نہیں دیتا، اس کے بجائے ان کا مقصد یا تو انسانیت کی بنیاد پر دْوسروں کی مدد کرکے ثواب کمانا ہوتا ہے یا پھر کسی محفوظ ہاتھ میں اپنی رقم کو محفوظ کرناہوتا ہے۔ جہاں تک سرمایہ کاری کا تعلق ہے، اسلام میں اس کیلئے دْوسرے طریقے ہیں مثلاً شرکت وغیرہ، لہٰذا قرضوں کے عقد کے ذریعے نفع اندوزی نہیں کی جا سکتی”۔