الفرقان

(حصہ اول)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور مسلمانو! جان لو کہ تمہیں جو مال بطورِ غنیمت ملے، اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول، رسول اللہ کے قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس نصرت پر جو ہم نے (تمہاری قلبی طمانیت اور ثابت قدمی کے لیے فرشتوں کی صورت میں) اپنے مقدس بندے پرحق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے (بدر ) کے اُس دن نازل فرمائی جب دو لشکر آپس میں ٹکرائے، (الانفال:41)”، (٢)”رمضان وہ (بابرکت) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ذریعۂ ہدایت ہے اور (اس میں) ہدایت کی روشن دلیلیں ہیں اور حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے، (البقرہ: 185)”۔

قرآنِ کریم میں دو چیزوں کو ‘الفرقان’ سے تعبیر فرمایا ہے، ایک یومِ بدر اور دوسرا قرآنِ کریم، فرقان، برہان اور حجّت کو بھی کہتے ہیں اور اس کے معنی ہیں: ‘حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے والا’۔ یہ صفت غزوۂ بدر اور قرآنِ کریم میں قدرِ مشترک ہے۔ یعنی کوئی اپنی حقانیت کو جاننا چاہتا ہو تو اس کے لیے کسوٹی، میزان اور معیار غزوۂ بدر اور قرآنِ کریم ہیں۔ غزوۂ بدر میں تمام ظاہری اسباب کفارِ مکہ کے حق میں تھے، عددی اعتبار سے وہ تین گنازائد تھے اور اونٹوں، گھوڑوں اور سامانِ حرب کے اعتبار سے کئی گنا زائد تھے۔ مسلمان ابوسفیان کے تجارتی قافلے کا سامنا کرنے کے لیے مدینۂ منورہ سے نکلے تھے، مگر قضائے الٰہی نے اُن کا سامنا کفارِ مکہ کے ایک بڑے اور منظّم لشکر سے کردیا۔ اگرچہ اُس دور میں تجارتی قافلے کے ساتھ بھی دفاع کا ضروری اہتمام ہوتا تھا، کیونکہ قافلے کے لٹ جانے کا خدشہ رہتا تھا، مگر اس کا دفاعی حصارایک باقاعدہ لشکر جتنا منظّم نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور یاد کرو! جب اللہ نے تمہارے ساتھ دو گروہوں (تجارتی قافلے اور کفارِ مکہ کے منظم لشکر) میں سے ایک پر تم سے غلبے کا وعدہ فرمایا تھا اور تم چاہتے تھے کہ غیر مسلّح گروہ سے تمہارا سامنا ہو جائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کی حقانیت کو ثابت کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے، (الانفال: 7)”۔ یعنی اگر مسلمانوں کا تجارتی قافلے سے سامنا ہوتا تو کفار طعن کر سکتے تھے کہ ایک تجارتی قافلے پر فتح پانا کونسی بہادری ہے، کسی بڑے لشکر کے سامنے آئے ہوتے تو پتا چل جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خواہش کے برعکس انھیں اس طعن سے بچایا اور ایک منظم لشکر کے مقابل لاکھڑا کیا، کیونکہ باری تعالیٰ کی مرضی یہ تھی: ”( ہر معیار سے) حق کی حقانیت اور باطل کا بطلان ثابت ہو جائے، (الانفال: 8)”۔

غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی غیبی نصرت کے لیے فرشتوں کے نازل کیے جانے کا ذکر آل عمران اور الانفال میں موجود ہے، اس کی بابت دو آراء ہیں، ایک یہ کہ فرشتوں نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا اور دوسرا یہ کہ وہ محض مسلمانوں کی طمانیتِ قلب اور ثابت قدمی کے لیے اتارے گئے اور عملاً جنگ مسلمانوں نے لڑی اور جیتی، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور اللہ نے اس نصرت کو تمہارے لیے صرف خوش خبری بنایا تاکہ اس کی وجہ سے تمہیں قلبی اطمینان حاصل ہوجائے اور نصرت صرف اللہ کی جانب سے ہوتی ہے، بے شک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہے، (الانفال: 10)”۔ ہماری رائے بھی یہ ہے کہ فرشتوں نے جنگ میں عملاً حصہ نہیں لیا، ورنہ بستیوں کو تہہ وبالا کرنے کے لیے ایک فرشتہ بھی کافی ہوتا تھا، مزید یہ کہ لشکرِ کفار کے نامی گرامی سورمائوں کے قاتلوں کے نام تاریخ میں ثبت ہیں اور وہ صحابۂ کرام تھے۔

کفارِ مکہ مسلمانوں سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ چکے تھے، انھوں نے اپنے لیے بہتر جگہ کا انتخاب کیا، وہاں پانی کا کنواں بھی تھا، زمین بھی سخت تھی، جس پر چلنا پھرنا انسانوں، گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے آسان تھا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کو وہاں پڑائو ڈالنا پڑا، جہاں پانی بھی نہ تھا، زمین بھی ریتیلی تھی، جس پر چلنا پھرنا دشوار ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو غسل کی حاجت بھی پیش آئی اور شیطان نے انھیں ورغلانا چاہا کہ اپنے دعوے کے مطابق تم حق پر ہو اور حال یہ ہے کہ غسلِ طہارت کے لیے تمہارے پاس پانی تک نہیں ہے، ظاہری اسباب کے حوالے سے یہ صورتِ حال ہمت شکن تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے غیبی اسباب سے صورتِ حال کو بالکل الٹ دیا۔ اس کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”یاد کرو! جب اس نے تم پر غنودگی طاری کردی جو تمہارے لیے باعثِ طمانیت بن گئی اور تم پر آسمان سے بارش نازل کی تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کردے اور تم سے شیطان کے وسوسے کو دور کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس کے ذریعے تمہیں ثابت قدم فرمادے، (الانفال: 11)”۔

اس غیبی نصرت نے صورتِ حال تبدیل کر دی، مسلمانوں نے حسبِ ضرورت پانی جمع کر لیا، طہارت بھی حاصل کرلی اور مسلمانوں کی طرف کی ریتیلی زمین سخت ہوگئی اور کفار کی طرف کی سخت زمین کیچڑ اور پھسلن والی ہوگئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”جب تم (وادیِ بدر کے) قریبی کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے اور تجارتی قافلہ تم سے نچلی جانب تھا، اگر تم مقابلے کا وقت مقرر کرتے تو مقررہ وقت پر پہنچنے کے وقت ضرور اختلاف کا شکار ہوجاتے، لیکن اللہ نے (تمہاری تدبیر کے بغیر) تمہیں جمع کر دیا تاکہ مسلمانوں کے غلبے کی بابت اللہ کا فیصلہ پورا ہوکر رہے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے، وہ دلیل کے ظاہر ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے، وہ دلیل سے زندہ رہے، بے شک اللہ سب کچھ سننے اور خوب جاننے والا ہے، (الانفال: 42)”۔

اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی تدبیرِ غالب کا ایک اور کرشمہ بھی ظاہر ہوا، دونوں لشکروں پر نیند طاری ہوگئی اور اس میں فریقین نے خواب دیکھے، اس کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”یاد کیجیے! جب خواب میں اللہ نے ( حوصلہ بڑھانے کے لیے) تمہیں کفارِ مکہ کو کم تعداد میں دکھایا اور اگر زیادہ تعداد میں دکھائے جاتے تو تم ضرور ہمت ہار جاتے اور جنگ کرنے کے بارے میں تم مختلف الرائے ہو جاتے، لیکن اللہ نے تم کو اس ابتلا سے بچا لیا، بے شک وہ دلوں کے حال کو خوب جاننے والا ہے اور لشکروں کے باہم ٹکرائو کے وقت کفار تعداد میں مسلمانوں کو کم کرکے دکھائے گئے (تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں) اور مسلمان بھی کافروں کو تعداد میں کم کر کے دکھائے گئے (تاکہ وہ ہمت ہار کر میدان سے بھاگ نہ جائیں)، یہ تدبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ اللہ نے (کفار کی ہزیمت کا) جو فیصلہ فرما لیا تھا وہ پورا ہوکر رہے، (الانفال: 43-44)”۔

اُس دور میں چونکہ لشکر آمنے سامنے صف آرا ہوتے تھے اور بھرپور جنگ سے پہلے سورما مقابل لشکر کو چیلنج کرتے ہوئے کہتے تھے: ‘ہے کوئی جو ہمارے مقابل آئے’ چنانچہ کفار کی طرف سے عتبہ، شیبہ، ولید میدان میں اترے، اِدھر سے انصاری جوان میدان میں کودے۔ عتبہ نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! یہ کسان ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں، ہماری ٹکر کے مرد میدان میں بھیجو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنوہاشم اٹھو اور حق کی حمایت کے لیے میدان میں اترو، چنانچہ خاتم النبیّن سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کا پورا اثاثہ میدان میں اتار دیا، الغرض حضرت امیر حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم میدان میں اترے۔ یہ وہ اُسوہ اور رول ماڈل ہے، جو امام المرسلین نے پیش فرمایا اور آج تک عدیم النظیر اور فقید المثال ہے۔ عتبہ نے پہچان کر کہا: ‘یہ برابر کا جوڑ ہے’۔ پھر گھمسان کا رن پڑا، اس امت کے فرعون ابوجہل کو دوانصاری نوجوانوں نے زیر کیا۔ 70کفارِ مکہ ذلت کی موت سے دو چار ہوئے اور چودہ صحابۂ کرام شہید ہوئے۔ اللہ کایہ فرمان سچ ثابت ہوا: ”کہہ دیجئے! حق آگیا اور باطل مٹ چکا، (آخرِ کار) باطل نے مٹنا ہی ہے، (بنی اسرائیل: 81)”۔

آج کل جنگوں میں آپریشن پوسٹ میدانِ جنگ سے دور محفوظ مقام پر ہوتی ہے، جہاں لشکر کا سپہ سالار جنگی حکمتِ عملی ترتیب دیتا ہے اور ہدایات جاری کرتا ہے، لیکن وہ دور آمنے سامنے کی جنگ کا تھا، اس لیے ایک بلند مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چھپر بنایا گیا، جسے سیرت کی کتابوں میں ”عریشِ بدر” کہا جاتا ہے۔ (جاری ہے)