غیرت کے نام پر قتل۔ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں

گلوبلائزیشن کے دَور میں جہاں دنیا انگلیوں کی پوروں میں سمٹ کر رہ گئی ہے، ہمارا معاشرتی نظام فرسودہ روایات میں جکڑا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو، جب ”غیرت کے نام پر قتل” کی کوئی خبر ٹی وی یا اخبارات کی زینت نہ بنتی ہو۔

رسوم و رواج سے معاشرے کے مہذّب یا غیر مہذّب ہونے کا اندازہ ہو تا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نے غیرت کے نام پرصرف قتل، قر آن سے شادی، ونی، کاروکاری، بدلہ صلح اورغیر انسانی رویّے ہی سیکھے ہیں؟ آج تک یہ سننے میں نہیں آیا کہ غیرت مند بھائی نے بہن کی مرضی کے خلاف ہونے والی شادی رکوا دی۔ پاکستان میں سالانہ 5000سے زائدمرد و زن غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں کی نگہداشت کرتا ہے کہ کوئی بھیڑیا بکریاں نہ لے جائے یا اس کی بکری کسی کی فصل کو تباہ نہ کردے، اسی طرح والدین بھی اپنی اولاد کی نگہداشت کے ذمے دار ہیں، تا کہ وہ غیر محرموں سے تنہائی میں ملیں نہ بیہودہ کلچر میں مبتلا ہوں۔ بلوغت کے بعد نکاح میں تاخیر سماجی برائیوں کا سبب بنتی ہے، چنانچہ اس فرض کی انجام دہی جلد کرنی چاہیے۔ ولی لڑکی سے براہ راست یا بالواسطہ رضامندی حاصل کرے اور باہمی اتفاق سے نکاح کا معاملہ طے کرے۔ زبردستی فیصلہ مسلط کرنے سے بسا اوقات لڑکی غلط راستہ اختیار کر لیتی ہے، پھر خاندانی غیرت جوش میں آتی ہے، لڑکی قبر میں پہنچ جاتی ہے جبکہ ”غیرت مند” جیل کی کوٹھری میں معافی کا منتظر ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان جدید ترین گھر، گاڑیاں یا ایسیسریز نہیں ہوتیں۔ ملک و قوم اپنی تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدن اور وسیع النّظری سے پہچانے جاتے ہیں۔ آج مغرب غیرت کے نام پر قتل کے متعلق ہمیں ہتک کا نشانہ بناتا ہے، لیکن مغرب میں سب سے پہلے رومن سلطنت میں آگسٹاس سیزر نے اخلاقی اقدارکی برقراری کے لیے قانون سازی کی، جس میں مرد کو اپنی بیوی اور بچوں پر مکمل اختیار حاصل تھا۔ حال ہی میں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی محمد عمر کی اہلیہ رابعہ شاہ اور 16ماہ کی بیٹی عائزہ 4اپریل 2025کو قتل کر دی گئیں۔ دہرے قتل کا یہ واقعہ مانسہرہ کے علاقے جابہ میں پیش آیا۔ حوا کی بیٹیاں سوال کرتی ہیں کہ:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مذہب کی یہ تعلیمات ہیں اور نہ کلچر یہ سکھاتا ہے تو پھر یہ سفاکیت ہمارے معاشرے میں کیوں؟ ریاست اور معاشرے کا ایسے قتل پر ردعمل بے حسی کا ہے کہ اب ایسی خبروں کو قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی مذہبی جماعت دہائی دیتی ہے اور نہ لبرلز بولتے ہیں۔ نور مقدم یا سارہ انعام کی طرح مانسہرہ کی سید زادی ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی کہ اس کا درد انہیں محسوس ہو۔ سرگودھا، چک 104ایس میں نوجوان لڑکے نجم الحسن نے غیرت کے نام پر تین بچوں کی ماں اپنی پھوپھی کنول پروین کو قتل کر دیا۔ ترقی یافتہ دَور میں بھی ہماری خواتین اور بچّیوں کو فرسودہ روایات، جیسے بدلہ صلح، کارو کاری، قرآن سے شادی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ بدلہ صلح سے مراد یہ کہ اگر کسی خاندان یا قبیلے نے کسی دوسرے خاندان یا قبیلے پر کوئی الزام لگایا اور وہ ثابت بھی ہوگیا تو صلح کے طور پر ملزم خاندان اپنی لڑکی کی شادی الزام لگانے والے خاندان میں کر دیتا ہے، تاکہ ان کی عزت قائم رہے۔ اسی طرح جائیداد کے لیے لڑکی کی شادی قرآن سے کر کے اسے سفید کپڑے پہنا کر گھر میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کا بنیادی سبب دین سے دوری، فرسودہ سوچ، نام نہاد ثقافت کی اندھی تقلید اور تعلیم و تربیت کی شدید کمی ہے، مثلاً ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ خنزیر کا گوشت حرام ہے، یہ بات اس طرح ذہن میں نقش ہو جاتی ہے کہ مسلمان خنزیر کا نام تک لینا گناہ سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں سکھایا جاتا کہ انسانی جان کی قدرو قیمت بیت اللہ سے بڑھ کر ہے۔
ہم سے یہ قتل کے منظر نہیں دیکھے جاتے
شاہراہوں پہ کٹے سر نہیں دیکھے جاتے

بعض اوقات رقابتی الزام پر غیرت کے نام پر قتل کر دیے جاتے ہیں، مثلاً دو جٹھانیوں کا کسی بات پر اختلاف ہوا تو ایک نے دوسری پر الزام عائد کیا کہ اس نے رات کو اس کے کمرے سے کسی کو نکلتے دیکھا تھا۔ جس پر اس کے دیور نے بغیر سوچے سمجھے اسے قتل کر دیا۔ دیہی و شہری کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ سارہ انعام اور نور مقدم کے قاتل پڑھے لکھے شہری مرد تھے۔ چند برسوں سے ایسے واقعات زیادہ رپورٹ ہونے کی وجہ ملزمان کو عدالتوں کی طرف سے ضمانت ملنا ہے۔ ضمانت کے دوران مقتول کے خاندان سے معافی یا لین دین کر کے ایسے کیسز کو بند کردیا جاتا ہے۔ سزاؤں کا تناسب ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ ان واقعات میں کمی اسی وقت ممکن ہے جب قاتلوں کو سخت اور بروقت سزائیں ملیں۔ غیرت کے نام پر قتل پر اسلامی تعلیمات پر حرف گیری کی جاتی ہے۔ حالانکہ اسلامی قانون بہت واضح ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی اوراس کے آشنا کو زنا کا مرتکب پائے اور قتل کردیتے تو اس کو قتل ہی مانا جائے گا اور مجرم کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک قاتل کو دی جاتی ہے۔ عورتوں پر تہمت تک لگانے کی سزا مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ لوگ جو پاک دامن خواتین پر تہمت لگائیں، پھر (اپنے الزام کی سچائی میں) چار عدد گواہ پیش نہ کر سکیں، ایسے لوگوں کو 80کوڑے مارو، ان کی گواہی بھی کبھی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں۔

حضرت سعد بن عبادہ نے مندرجہ بالا حکم سنا تو اللہ کے رسول سے پوچھا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ ملوث دیکھوں تو میں اسے چار گواہ لانے تک مہلت دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔ اس پر سعد بن عبادہ کہنے لگے میں تو اگر کسی مرد کو اپنی عورت کے ساتھ دیکھ لوں تو تلوار کے ساتھ فوراً گردن اڑا دوں۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا! تمہیں سعد کی غیرت پر تعجب ہوا کہ یہ اس قدر غیرت مند ہے، سن لو! میں اس سے کہیں زیادہ اور اللہ تعالیٰ مجھ سے کہیں بڑھ کر غیرت مند ہیں، لہٰذا کسی عورت کے قتل پر بدلے میں اس شخص سے قصاص لیا جائے گا۔

دور نبوی میں ہی حضرت ہلال بن امیہ عشاء کے بعد گھر آئے تو اپنی بیوی کے ساتھ شریک بن سحماء کو ملوث پایا، فجر کی نماز کے بعد اللہ کے رسول کے سامنے تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ چار گواہ لانا پڑیں گے، نہیں تو 80کوڑوں کی سزا ملے گی۔ اسی موقع پراللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے معاملے پر ”لعان” کے نام سے الگ قانون بنا دیا کہ جو شخص اپنی بیوی کے جرم پر اکیلا گواہ ہو تو وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ اس نے جو الزام لگایا، وہ اس میں سچا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ الزام میں جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی طرح عورت چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے گی کہ اس کا خاوند جھوٹ بولتا ہے اور پانچویں بار کہے گی کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو۔

حضرت ہلال اور ان کی بیوی کی قسموں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کا رشتہ ختم کرا دیا۔ لعان بھی عدالت میں ہوا، دونوں کے درمیان جدائی کرا دی لیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کوئی غیرت کے نام پر قتل کرے۔ ایسے واقعات کا تدارک اور کمزوروں کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے، جب لوگوں میں شعور کے ساتھ ساتھ قانون اور سزا کا خوف بھی ہو۔ قاتلوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ جو مرد عورتوں پر غیرت کے نام پر تشدد کرتے ہیں، وہ سزائے موت کے مستحق ہیں۔ سزاؤں میں سختی نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کی زندگی تباہی کا شکار ہو جاتی ہے۔ تمام بڑے علماء خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، اسی موقف کے قائل ہیں۔