دین اسلام نے ہمیشہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی راہ دکھائی ہے۔ جب ظالم کفار مکہ نے مکہ میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی، انہیں ان کے گھروں سے نکالا، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، تو اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا۔ اصل تو جہاد اسلحہ سے میدان جنگ میں ہی کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاد زبان، عمل اور مال سے بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی میدانِ جنگ میں نہ جا سکے تو کیا وہ مظلوموں کے حق میں کچھ نہیں کر سکتا؟ ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات بنایا ہے، جس میں ہر زمانے کے حالات کے مطابق ظالم کے خلاف مزاحمت کے طریقے موجود ہیں۔ اگر کوئی تلوار نہ اٹھا سکے تو وہ اپنی قوتِ خرید سے ظالم کی معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اس کے ظلم کی مالی مدد سے ہاتھ کھینچ سکتا ہے اور اسے کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ موجودہ زمانے میں کسی بھی قوم و ملت کی سیاسی اور عسکری برتری کی بنیاد معاشی ترقی اور معاشی برتری پر ہے، جب تک معاشی طور پر کوئی قوم مضبوط اور مختار نہ ہو اس وقت تک وہ سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہوتی ہے، یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں اگر کسی قوم کو کمزور کرنا ہو تو سب سے پہلے ان کی معیشت کو کمزور کیا جائے اور موجودہ زمانے میں اس کا موثر طریقہ کار ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرناہے جس سے ان کی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے اور مظلوم کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ مسلمانوں نے اس طریقہ کار کو ماضی قریب میں بھی اپنایا جب انگریزوں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کیخلاف تحریک خلافت اور ترک موالات کی تحریک چلائی۔ اسی طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار قریش کے زور کو توڑنے کیلئے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے جس پر شام سے مکہ اور مکہ سے شام تجارتی قافلوں کی آمد و رفت ہوتی تھی کو غیر محفوظ بنایا جس کے نتیجے میں غزوہ بدر پیش آیا۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور ان کے قلعے فتح نہیں ہورہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درختوں کے جلانے حکم دیا۔
اسی طرح جب حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ جو نجد کے سردار تھے اور کفار قریش کو گندم فروخت کیا کرتے تھے نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے کفارقریش پر گندم فروخت کرنا بند کردی تھی۔ اسی طرح جب صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نیابوجندل رضی اللہ عنہ کو اور صلح حدیبیہ کے بعد ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کیاجو کفار مکہ کی قید سے بھاگ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے تھے تو انہوں نے مکہ سے شام جانے والے ایک راستے پر اقامت اختیار کی اور اس راستے سے کفار مکہ کا جو بھی تجارتی قافلہ گزرتا اس پر حملہ کردیتے جس سے کفار کے قافلوں کی آمد و رفت بند ہوگئی۔ مذکورہ واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کفار کے ان تجارتی اداروں اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرناجو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہیں، کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ایمانی حمیت بھی اسی کی متقاضی ہے۔
یہی اصول دنیا کی دیگر اقوام نے بھی اپنایا۔ جنوبی افریقہ میں جب سیاہ فاموں پر نسل پرستانہ قوانین لاگو کیے گئے، تو عالمی برادری نے اس کا معاشی بائیکاٹ کیا۔ کئی دہائیوں تک جنوبی افریقہ کی حکومت عالمی اقتصادی دباؤ کی زد میں رہی، یہاں تک کہ اسے نسل پرستی کے قوانین ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بھارت میں برطانوی راج کے خلاف گاندھی کی سودیشی تحریک بھی ایک مثال ہے، جس میں برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے انہیں معاشی نقصان پہنچایا گیا۔
آج فلسطین میں معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ غزہ کے باسیوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا ہے، ان کے گھروں پر بم برسائے جا رہے ہیں اور دنیا کے طاقتور ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر ہم صرف زبانی دعائیں کرتے ہیں لیکن عملاً ان کمپنیوں کی مصنوعات خریدتے ہیں جو اسرائیل کی مالی مدد کرتی ہیں، تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہمارا مال بالواسطہ طور پر انہی بموں کی تیاری میں استعمال نہیں ہو رہا جو بے گناہوں کے سروں پر برس رہے ہیں؟
معاشی بائیکاٹ بھی ایک عملی جہاد ہے، جو ہر مسلمان کر سکتا ہے۔ یہ کوئی وقتی جذباتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک مستقل حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے ظالموں کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اسرائیلی مصنوعات سے منہ موڑتے ہیں، تو ہم صرف مصنوعات نہیں چھوڑتے ہم ایک پیغام دیتے ہیں کہ ہم مظلوم کے ساتھ ہیں، نہ کہ ظالم کے خریدار! یہ بائیکاٹ ہماری ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت کا امتحان ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں کے مسلمان نہیں، بلکہ عمل کے میدان میں بھی اپنے دین اور امت کے ساتھ کھڑے ہیں۔