امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟

ہماری جدید تاریخ کی سب سے بڑی تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایک ایسی جنگ جو یقینی طور پر بہت کچھ بدل دے گی۔ ممکن ہے طاقت کا توازن بھی تبدیل ہو اور نئے رولز آف گیم ایجاد ہوں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے طوفانی اقدامات نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہر جگہ تجزیہ کار، ماہرین تجزیہ کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی دنیا میں کون بچے گا اور کون مصیبت کا شکار ہوجائے گا؟یہ سب وہی ہے جو امریکا نے ایک زمانے میں سوویت یونین کے ساتھ کیا تھا۔ وہ بھی طاقت کی جنگ تھی اور آج جو ہو رہا ہے وہ بھی جنگ کا ایک اور فیز، ایک اور انداز ہے۔

50اور 60کے عشرے میں امریکا نے مغربی دنیا کو ساتھ ملا کر کمیونسٹ سوویت یونین کے خلاف محاذ بنایا، چین تب سوویت یونین کے ساتھ تھا تو چین بھی سوویت یونین (روس) کے ساتھ ہی رگڑا گیا۔ 60کے عشرے میں جب سوویت یونین کا چین کے ساتھ اختلاف ہوا، روسی ماہرین چین چھوڑ کر چلے گئے، چینیوں کو اپنے طور پر سب کچھ کرنا پڑا، نیوکلیئر ہتھیاروں سے لے کر انڈسٹری وغیرہ تک۔ تب امریکی ماہرین نے سوچا کہ چین کو سوویت یونین سے الگ کر کے انگیج کیا جائے۔

امریکا کے لیجنڈری وزیرخارجہ ہنری کسنجر بھی یہی سوچتے تھے۔ چین کے ساتھ خفیہ سفارت کاری کا ڈول ڈالا گیا۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا اور یوں امریکا نے چین کو تسلیم کر لیا۔ انگیجمنٹ شروع ہوگئی۔ تب چین اپنے پرانے سوشلسٹ ماڈل ہی پر چل رہا تھا تو مغربی دنیا کے ساتھ اس طرح مکس نہ ہوسکا۔ پھر جب جدید چین کے بانی ژینگ ژیاؤ پنگ نے اپنی معاشی اصلاحات شروع کیں، بتدریج نجی ملکیت کی راہ ہموار کی گئی، چین میں خوشحالی آنے لگی تو فرق مٹتا گیا۔ چین میں خوشحال اور دولت مند طبقہ پیدا ہوا، بڑے بزنس مین پیدا ہونے لگے۔ تب ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ چین ایک نئی معاشی طاقت بن رہا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پروفیسر ہنٹنگٹن نے سنہ 1997میں کتاب لکھ دی تھی کہ آخر کار مغربی تہذیب کے مقابلے میں چینی تہذیب ہی کھڑی ہوگی اور تب اسے مسلم ممالک کی سپورٹ حاصل ہو گی جبکہ انڈین اور جاپانی تہذیبیں تب مغرب کے ساتھ ہوں گی۔ آج نقشہ کم وبیش ویسا ہی ہے، سوائے اس کے مسلم ممالک یا مسلم امہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ اس کے کسی کیمپ میں ہونے، نہ ہونے سے کچھ فرق ہی نہیں پڑ رہا۔ جاپان اور انڈیا وہیں کھڑے ہیں جہاں پروفیسر ہنٹنگٹن کا اندازہ تھا۔ ایک اور امریکی پروفیسر فرانسس فوکویاما نے سنہ 1992میں کتاب لکھی تھی، اینڈ آف ہسٹری اینڈ لاسٹ مین۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے سے دنیا میں نظریات اور تہذیبوں کا ٹکراؤ ایک طرح سے ختم ہوگیا ہے۔ اب دنیا کے پاس لبرل ڈیمو کریسی ہی واحد آپشن بچی ہے، اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اس لیے یہ اینڈ آف ہسٹری ہے۔ فوکو یاما کو اندازہ نہیں ہوگا کہ چین آگے جا کر لبرل ڈیموکریسی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنا ہی ایک یونیک سا ماڈل پیش کرے گا اور اسے چلا کر بھی دکھا دے گا۔

معذرت کے بحث تھوڑی مشکل، تھوڑی علمی ہوگئی، مگر یہ ضروری تھا۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ امریکا نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ چین کو ماڈرن معاشی نظام سے باہر کر کے اس کی معاشی قوت کو گھٹایا جائے اور کینڈے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ ٹرمپ کا اصل ٹارگٹ چین ہی تھا، یہ تو اب مزید واضح ہوگیا ہے جب باقی ممالک کا ٹیرف 3ماہ کے لیے ملتوی کر کے چین پر مزید ٹیرف لگا دیے گئے ہیں۔ چین نے بھی خم ٹھونک کر مقابلے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ بھی جوابی ٹیرف بڑھاتا جا رہا ہے اور بقول صدر ٹرمپ چین امریکا کی عزت نہیں کر رہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عالمی تعلقات اور تجارتی جنگوں میں اخلاقیات اور ارفع اصولوں سے کہیں زیادہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کے پاس کتنے اچھے کارڈز ہیں اور وہ کتنی طاقت رکھتا ہے اور جنگ کس قدر طویل کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ چین کے خلاف جس پلان پر عمل پیرا ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس میں امریکی تھنک ٹینکس کی کتنی اِن پٹ شامل ہے؟ صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی اکثریت امریکا فرسٹ اور امریکا سپریم کے نعرے کی بھی علمبردار ہے۔ یہ لوگ بہت عرصے سے ٹیرف وار کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں امریکا کے بلند ترین تجارتی خسارے کے پیچھے امریکی اتحادیوں اور یورپی ممالک کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے صدر ٹرمپ کو چین کے خلاف محاذ جنگ کھولنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر پر ٹیرف لگا کر ایک تجارتی جنگ عظیم شروع کر دینے کی ترغیب دی۔ اس سے امریکی اسٹاک مارکیٹ کو جو دھچکا لگا، اس نے لگتا ہے ٹرمپ کو یہ سبق سکھایا کہ ٹھنڈا کر کے کھانا چاہیے، چنانچہ سردست 3ماہ کے لیے یہ ملتوی کر دیا گیا، لیکن یہ مت سمجھئے کہ بلا ٹل گئی۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم جو سوچے بیٹھی ہے، اس پر عملدرآمد کرا کر چھوڑے گی۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں امریکا کہیں ٹیرف کم کر دے، کہیں چھوڑ دے اور کہیں رہنے دے۔

اصل جنگ امریکا اور چین کی ہے۔ یہ ابھی شروع ہوئی ہے۔ اس میں شدت آنی ہے۔ اصل مشکل امریکی کمپنیوں کے لیے پیدا ہوئی ہے جنہیں صدر ٹرمپ واپس امریکا آنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ چین صرف فیکٹریاں لگانے کی جگہ ہی نہیں تھی بلکہ وہ ایک بڑی مارکیٹ بھی ہے۔ امریکی کمپنیاں اگر چین چھوڑ کر امریکا واپس جاتی ہیں تو پھر ان کی پراڈکٹ پر اتنا بڑا چینی ٹیرف لگ جائے گا کہ وہ چینی مارکیٹ میں فزیبل نہیں رہیں گی۔ ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے، پہلا راؤنڈ سمجھ لیں۔ دونوں اطراف سے بہت کچھ ہوگا۔ کچھ انتظار کر لیتے ہیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ تجارتی جنگ آگے جا کر کہیں نہ کہیں عسکری ٹکراؤ کی شکل بھی اختیار کرے گی۔

حکومت پاکستان محتاط ہے۔ اس نے ٹرمپ کے ٹیرف پر کچھ بھی نہیں کہا اور مذاکرات کا آپشن اپنایا۔ یہ درست حکمت عملی ہے، مگر پاکستان کے لیے اس بار چین اور امریکا میں بیلنس کرنا آسان نہیں۔ جب آگ بھڑکے گی تب واضح پوزیشن لینا پڑے گی۔ ہمیں آخر کار چین کی طرف ہی کھڑا ہونا پڑے گا، تاہم جتنا وقت ہم لے سکتے ہیں، لینا چاہیے، ممکن ہے حالات کوئی اور رخ اختیار کر جائیں اور ہماری بچت ہو جائے۔