پاک، افغان تعلقات، امن کی امید

مختلف ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی روابط میں بہتری سے دونوں ملکوں کے درمیان موجود کشیدگی میں کمی ہونے کی امید رونما ہوئی ہے۔ یہ امید ان لاکھوں عام لوگوں کے لیے مایوسی کے اندھیرے میں ایک کرن کی مانند ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ہر گزرتا دن ان کی پریشانیوں میں اضافے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیا ن بداعتمادی کی ایک شدید کیفیت موجود ہے جس کا بنیادی سبب فتنۂ خوارج ہے۔ پاکستان کا دوٹوک موقف ہے کہ وہ پڑوسی ملک سے دراندازی کو مزید برداشت نہیں کر ے گا اور اس سلسلے میں افواجِ پاکستان کوئی بھی اقدام کر سکتی ہیں۔ پاکستان کا افغانستان سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے اور پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ نہ بنائے۔ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے مطالبے کے جواب میں یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، اس میں ہمیں ملوث نہ کیا جائے تاہم پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی، تخریبی کارروائیوں حتی کہ خودکش حملوں میں بھی افغان شہریوں کے شریک ہونے کے ثبوت پاکستان نے فراہم کر دیے ہیں جس کے بعد سفارتی سطح پر ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں افغان حکام نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ جب پاکستان ایک زبردست فوجی قوت کے باوجود ٹی ٹی پی کو قابو نہیں کر پا رہا تو وسائل کی قلت کا شکار افغا ن حکومت یہ کام کیسے کر سکتی ہے؟

جہاں تک پاکستان میں افغانستان سے ہونے والی دراندازی کے ثبوت اور شواہد کا تعلق ہے تو وہ اس قدر واضح ہیں کہ ان کا انکار اب دن میں سورج کو جھٹلانے کی مانند ہے۔ مثال کے طورپر گزشتہ دو دنوں میں دراندازی کے دو مختلف واقعات سامنے آئے ہیں۔ ایک واقعے میں فتنۂ خوارج سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ نے سرحدی خاردار تار کو کاٹ کر افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ایف سی اہل کاروں نے گھیرے میں لے کر ختم کر دیا۔ دوسرے واقعے میں پچاس سے زائد ایسے بچوں کو افغان حکام کے حوالے کیا گیا جو کہ سرحدی باڑ کو کاٹ کر ملک میں داخل ہوئے تھے اور اسمگلنگ سمیت متعدد جرائم میں ملوث تھے۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو افغان حکومت کی کمزوری یا ان کی ناقص پالیسی کی وجہ سے کن مسائل کا سامنا ہے؟ لیکن مسائل کا بقدر امکان حل بھی دوطرفہ تعلقات کی بحالی اور مشترکہ کوششوں ہی میں مضمر ہے۔ ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی میں خود افغانستان بھی غیر محفوظ ہے۔ ماضی کی مثال سامنے ہی ہے جب افغانستان میں موجود ان گروہوں نے مرکزی حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف ممالک کے خلاف کھل کر اقدامات کیے جس کے نتائج لاکھوں افغانوں کو شدید مصائب کی صورت میں بھگتنا پڑے۔

اگر افغان عبوری حکومت آج ان گروہوں کو لگام نہیں ڈالتی تو کل ان کی سرگرمیاں اک مرتبہ پھر افغانستان کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کی غیر مستحکم صورت حال پاکستان کے لیے بھی مسلسل تشویش کا باعث ہی رہے گی۔ منشیات، اسلحے اور کرنسی کی اسمگلنگ سے پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچتا ہی رہے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان موجود طویل سر حد کو ایک جانب سے محفوظ بنانا بہت ہی دشوار ہے جب تک کہ دوسری طرف سے اس سلسلے میں سنجیدگی اختیار نہ کی جائے۔ اس لیے افغان عبوری حکومت کا عذر عالمی سطح پر قابلِ قبول نہ ہوگا کہ وہ وسائل نہ رکھنے کی وجہ سے فتنۂ خوارج کی سرگرمیوں کی روک تھام نہیں کر سکتی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ افغان حکومت کو ان دہشت گردوں سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے اور پاکستان کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں، محافظوں اور اثاثوں کو نقصان پہنچانے والے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے سر حد عبور کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں انہیں قریبی پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن کے امکانا ت پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر افغان حکام کی فتنۂ خوارج کے ساتھ لاتعلقی کو درست نہیں سمجھا جا سکتا۔

پاک، افغان کشیدگی دور کرنے اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بحالی فی الواقع اہم پیش رفت ہے کیوں کہ دونوں ہی ملک ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی، سماجی، تجارتی اور نسلی رشتوں میں اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ کشیدگی کی صورت میں دونوں اطراف کے لاکھوں انسان بیک وقت متاثر ہوتے ہیں۔ افغانستان میں ہونے والی طویل جنگوں میں پاکستان کے عوام نے لاکھوں مہاجرین کو اپنے گھروں، محلوں، قصبوں اور بازاروں میں جس طرح پناہ دی اور زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے وہ اسلامی اخوت کا ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ان احسانات کے جواب میں پاکستان کے عوام کو افغان سرزمین سے دہشت گردی کا تحفہ ملنا، درحقیقت اسلامی اخوت کی شاندار روایات پر کیچڑ ملنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اور افغانستان ایسے دو بھائی ہیں جن کے گھروں کے درمیان ایک مشترکہ دیوار حائل ہے۔ اگر ایک بھائی کے گھر سے دوسرے کے گھر میں طویل مدت تک کھانا پہنچایا جاتا رہا ہے اور اب کسی معاملے پر دونوں میں رنجش پیدا ہوگئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرا بھائی سنگ باری شروع کر دے۔ دونوں بھائیوں کو ساتھ ساتھ ہی رہنا ہے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے کچھ درگزر بھی سیکھنا ہوگا۔ یہ یاد رہے کہ غلطیوں سے درگزر کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے گھر کو دوسرے بھائی کے گھر پر حملے کے لیے ہی پیش کر دینا، بہرحال ایک ایسا معاملہ ہے جسے نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس حرکت کے لیے دنیا کی کسی بھی تہذیب میں کوئی اچھا لفظ موجود ہے۔

بدترین کشیدگی کے باوجود اپنے عوام کے امن، باہمی سلامتی اور خطے میں استحکام کی خاطر دونوں ملکوں کو بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ ٹی ٹی پی اور فتنۂ خوارج نے بیس برس کی جنگ میں کیا حاصل کر لیا جس کے بعد وہ پاکستان کو نشانہ بنا کر آئندہ کچھ حاصل کر سکتی ہے؟ یہ محض عالمی طاقتوں کے لیے استعمال ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عالم اسلام کو اس وقت اتحاد کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوش گوار تعلقات اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ عسکری اور دفاعی قوت عالم اسلام کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ اس قوت کو باہمی تصادم میں نقصان پہنچانا دراصل اسرائیل، بھارت اور امریکا کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اگر امن قائم ہوجائے تو ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے والی توانائی مسلم امہ کے کام آ سکتی ہے۔