اس وقت جب جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے سے پوری قوم کے سینے غم سے فگار تھے، دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ منفی سوچ رکھنے والے طبقات اور جماعتیں اس سانحہ میں دہشت گردوں کی زبان بولتے نظر آئے۔ انہیں بے گناہ شہریوں سے زیادہ دہشت گردوں کا غم کھائے جا رہا تھا۔ انڈیا پاکستان میں دہشت گردی کا مین اسپانسر ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بھارتی میڈیا جعلی اے آئی ویڈیوز کے ذریعے دہشت گردوں کی پروپیگنڈا مہم چلاتا رہا۔
ہمارے ”مہربان” سوشل میڈیا پر بی ایل اے کی جاری کردہ من گھڑت خبروں اور پروپیگنڈے کو اپنی ٹائم لائن پر نہ صرف شیئر کرتے رہے بلکہ پاکستانی مسلح افواج کا مذاق بھی اڑاتے رہے۔ پاکستانی حکام اور اداروں سے اختلاف رائے رکھنا آئینی و قانونی طور پر درست ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کسی معاملے میں اختلاف کی صورت میں ریاست پاکستان کی آئینی و جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والی دہشت گرد قوتوں کی آلہ کاری کی جائے۔ سرکاری اداروں خصوصاً آئی ایس پی آر کی جب کوئی اپ ڈیٹ منظر عام پر آتی ہمارے ”اپنے” سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور بے ہودہ تبصرے کرتے دکھائی دیے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے دہشت گرد تنظیم بی ایل اے اور سیاسی جماعت کے پیروکاروں کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی صورت مغویوں کی بازیابی نہ ہو اور پاکستانی حکام دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ کاش ایسے لوگ یہ سوچ لیتے کہ اگر ان کا کوئی اپنا عزیز اسی ٹرین میں یرغمال ہوتا تو کیا وہ پھر بھی ٹرولنگ کرتے؟
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے دعویداروں نے واقعے پر افسوس ناک ردعمل دیا۔ بانی پی ٹی آئی کا ٹوئٹر جس کے ہاتھ میں ہے وہ پی ٹی آئی کا خیرخواہ ہے نہ پاکستان کا۔ ایسے دکھ اور صدمے کے وقت میں بھی عمرا ن خان نے دہشت گردی جیسے قومی ایشو پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسمبلی فلور کو حساس اداروں پر الزام کے لیے استعمال کیا۔ سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو نظر انداز کر کے نفرت پھیلانے والے ان لوگوں کو ”آستین کے سانپ” کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے
سبھی سنگی ساتھی جھوٹے نکلے
میرے اپنے، میرے دشمن نکلے
جن کی یاری پہ تھا ناز مجھ کو
شاہد وہی آستین کے سانپ نکلے
وقت آگیا ہے کہ انہیں دودھ پلانے والوں کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے تاکہ ان کے چہروں سے نام نہاد عوام دوستی کا نقاب اتر جائے۔ جو کچھ اس ٹولے نے کیا بھارت، افغانستان اور دوسرے دشمن یہی چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت دہشت گردی کے پس پردہ محرکات میں سب سے نمایاں محرک گوادر پورٹ اور وہاں موجود قدرتی وسائل ہیں۔ جن پر جاری معاشی اور کاروباری منصوبوں کی کامیابی سے بھارت اور امریکا کو سخت تکلیف ہے، اسی لیے وہ ایک اطلاع کے مطابق 280ملین کی بی ایل اے کو فنڈنگ کر رہا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ہمارے ”اپنے” بھی بھارت سے کم ثابت نہیں ہو رہے جن کو اپنا کہتے ہوئے ندامت محسوس ہوتی ہے۔ سیاست سے بے بہرہ یہ لوگ اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی دشمنی میں ہر اس کام پر جشن طرب مناتے ہیں جس میں پاکستان کو کوئی نقصان پہنچے۔ جعفر ایکسپریس کے سانحے جیسی بہیمانہ واردات پر ان کے ٹائیگرز مظلوموں کی لاشوں پر سیاست کرنے سے باز نہیں آئے۔ ذاتی مفادات کیلئے عوام میں مایوسی اور نفرت پیدا کرنا کیا قرین انصاف ہے؟
دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں جب فرانس کو شکست ہوئی اور جرمن افواج پیرس کی طرف بڑھ رہی تھیں، اس نازک موقع پر برطانوی دارالعوام میں چرچل نے تقریر کرتے ہوئے شکست اور پسپائی کا اعتراف کیا اور یہ بھی تسلیم کیا کہ جرمن ایک بہادر قوم ہے، ساتھ ہی اس عزم کا اعلان کیا کہ ہم ہر جگہ لڑیں گے، سمندر میں، زمین پر، آسمانوں اور ساحلوں پر لیکن کبھی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس ہماری مقتدرہ کو چرچل کی طرح اپنی غلطیوں کا ادراک ہے اور نہ اعتراف۔ یکجہتی پر مبنی عزم نو کی وہ کیفیت بھی دکھائی نہیں دیتی جو ایسے نازک موقع پر ضروری ہوتی ہے۔
ایک اور بات نوٹ کرنے کی ہے کہ دنیا میں کسی خطے میں دہشت گردی ہو یا وہاں کوئی گروہ حملہ کرے تو پورا ملک اور معاشرہ انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہوئے یک زبان اور تمام سیاسی اختلافات کو بھلا کر اجتماعی طور پر لڑتے ہیں۔ انسانی جان لینے والے دہشت گردوں کیلئے کسی دل میں کوئی رو رعایت یا ہمدردی نہیں پائی جاتی لیکن پاکستان میں جو بھی عناصر دہشت گردی کرتے ہیں ان کے ساتھ ہمدردیاں ہو جاتی ہیں۔ ہم ان کی دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لیتے ہیں، ہماری بھولی قوم کی ہمدردیاں جیسے کبھی طالبان کے ساتھ تھیں ویسے ہی ان دہشت گردوں کے ساتھ بھی ہیں جو بلوچستان میں مسافروں کی شناخت کے بعد ان کے ماں باپ بہن بھائی یا بچوں کے سامنے انہیں گولیوں سے بھون رہے ہیں۔ انہیں بھی اسی طرح مارجن دیا جا رہا ہے جیسے طالبان کو دیا جاتا تھا۔ معصوموں کا بی ایل اے نے جو قتل عام کیا ہے اس پر سوشل میڈیا کی کئی پوسٹیں پڑھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس قوم کو اپنے قاتلوں سے کتنا پیار ہے۔ ان قاتلوں کی سافٹ سائیڈ(رحم دلی) سوشل میڈیا پر دکھائی جاتی رہی کہ دہشت گرد ہونے کے باوجود وہ ایسے رحم دل تھے کہ انہوں نے عورتوں اور بچوں کو چھوڑ دیا لیکن یہ بات کسی کے ذہن نے نہیں سوچی کہ انہی دہشت گردوں نے ہی ان بچوں کے والد کو ان کے سامنے قتل کیا، بیٹوں، بھائیوں اور خاوندوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ دل کے ایسے ”اچھے” تھے کہ بچوں کو صرف یتیم اور عورتوں کو بیوہ کیا۔ ماں کو توکچھ نہیں کہا بس اس کا بیٹا اس کے سامنے مار ڈالا۔ قاتلوں سے ایسا پیار اور کہاں ملتا ہے۔ عبید اللہ علیم کے الفاظ میں
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں
ان حالات و واقعات میں سیاسی جماعتوں، عام شہریوں اور میڈیا سمیت ہر ادارے اور ہر طبقے کو حالات کا معروضی جائزہ لے کر بڑی احتیاط سے بات کرنی چاہیے تاکہ ہمارے آپس کے بحث مباحثے سے دشمن کو فائدہ نہ پہنچے۔ باشعور اور محب وطن شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی منفی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ مسائل کے حل کے لیے قوم کو بھی بھولپن چھوڑنا اور مفادات کی سیاست کو خیر باد کہہ کر ایک مضبوط اور متحد موقف اختیار کرنا ہوگا، اپنے سکیورٹی اداروں پر اعتماد رکھنا اور ان کے اقدامات کو شک کی نظر سے دیکھنے کی بجائے مکمل حمایت کرنا ہوگی ورنہ انتشار مستقبل میں ہماری قومی یکجہتی اور امن کے لیے مزید خطرات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اب تک یہی نظر آ رہا ہے کہ ہمارا طرز عمل بار بار ڈسے جانے کے باوجود ناصر کاظمی کے بقول یہی رہا
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
اک طرف جھوم کر بہار آئی
اک طرف آشیاں جلائے گئے
اک طرف خونِ دل بھی تھا نایاب
اک طرف جشنِ جم منائے گئے
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصر
خار و خس کی طرح بہائے گئے
اب یا کبھی نہیں کی سیچویشن میں ہمیں وقت ضائع کیے بغیر بروقت فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل ہو سکے۔