گزشتہ سوموار کو سرکاری ملازمین میں اس وقت شدید بے چینی کی لہر دوڑ گئی جب سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر یہ خبر تیزی سے پھیل گئی کہ وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی۔ سرکاری ملازمین کی طرف سے اس خبر پر فوری اور جتنا شدید ردِعمل ظاہر ہوا اس کی وزیرِ خزانہ یا حکومت کو شاید امید نہ تھی۔ سرکاری ملازمین نے اتنا بھرپور ردِعمل دیا کہ حکومت چند گھنٹے بھی اسے برداشت نہ کر سکی اور وزارتِ خزانہ کو شام کے وقت وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا کہ وزیرِ خزانہ نے اپنی تقریر کے دوران ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ یہ ساری خبر جو ان سے منسوب کی گئی ہے من گھڑت ہے، تاہم وضاحتی بیان نے معاملے کو شک سے یقین میں بدل دیا ہے۔
وضاحت کرتے ہوئے وزارتِ خزانہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیرِ خزانہ کے خطاب میں سرکاری ملازمین کے پے اسکیلز پر نظرِ ثانی یا ان کی تنخواہوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ وزارتِ خزانہ نے تحریری طور پر ایک معزز رکن اسمبلی کی جانب سے سوال اٹھائے جانے پر معزز ایوان کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزارتِ خزانہ نے معزز ایوان کو آگاہ کیا کہ فی الوقت اگلے مالی سال کیلئے وفاقی حکومت کے ملازمین کے پے اسکیلز پر نظرِ ثانی اور ان کی تنخواہوں اور الائونسز میں خاطر خواہ اضافے کی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔
دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ جل رہی ہو۔ وزیرِ خزانہ سے منسوب یہ بیان ایسے ہی وائرل نہیں ہو گیا تھا۔ ایسے بیان نادانستگی یا نادانی میں منظرِ عام پر نہیں لائے جاتے۔ اگر یہ بیان غلط طور پر رپورٹ کیا گیا ہے تو حکومت کے پاس سنہری موقع ہے کہ نیوز چینلز اور سینکڑوں اخبارات کو پیکا ایکٹ کے شکنجے میں لے آئے۔ اگلے روز کے اخبارات نے ہیڈ لائن اور چھ کالمی خبر بنا کر یہ بیان شائع کیا ہے۔ ہر حکومت کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ عوامی مفاد کے خلاف کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اسے منظرِ عام پر لا کر عوامی ردِعمل جانا جاتا ہے۔ اگر ردِعمل شدید ہو تو یوٹرن لے لیا جاتا ہے۔ ردِعمل زیادہ شدید نہ ہو تو مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد کر دیا جاتا ہے۔ مذکورہ واقعہ بھی شاید اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وفاقی حکومت نے عملی طور پر اپنے اقدامات سے ثابت کیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بوجھ سمجھتی ہے۔ اسی لیے رائٹ سائزنگ کے نام پر اداروں میں ملازمین کی ڈائون سائزنگ کا عمل جاری ہے۔ سرکاری ملازمین کو اصلاحات کے نام پر حکومت نے اچھا خاصا رگڑا لگا دیا ہے۔ اب انہیں بجٹ کے موقع پر تنخواہ اور پنشن میں سالانہ اضافے سے بھی محروم کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔ یاد رہے ابھی چند ہفتے پہلے ہی پنجاب نے اپنے ارکان اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں پانچ سو فیصد اضافہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان، وزراء اور مشیران کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف ہر چند روز بعد یہ دعویٰ دوہراتے ہیں کہ مہنگائی سنگل ڈیجٹ اور گزشتہ سات سال کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ اگر ان کے دعوے کو درست مان لیا جائے تو ارکان اسمبلی اور وزراء و مشیران کی تنخواہوں میں پانچ گنا اضافے کی کیا جسٹی فکیشن ہو گی؟ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں بہت بڑے اضافے کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں یا پنشن میں بڑا اضافہ نہ کرنے کا حکومت کے پاس کیا جواز ہے؟رائٹ سائزنگ کی دعویدار حکومت نے ابھی چند روز قبل ہی وفاقی کابینہ کا سائز ڈبل سے بھی زیادہ کر کے اپنے ہی بیان کیے گئے بچت کے دعوؤں کی نفی کر دی ہے۔
یہاں ایک اور حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اتحادیوں کے سہارے پر کھڑی ہے۔ وہ چاہے بھی تو من مانی نہیں کر سکتی۔ اس حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے جس کی مدد کے بغیر حکومت بجٹ پاس کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ پیپلز پارٹی کا یہ ٹریک ریکارڈ ہے کہ یہ پارٹی ملازمین کی سب سے بڑی خیرخواہ رہی ہے۔ اس پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک اپنے دورِ حکومت میں ملازمین کو جتنی آسانیاں اور ریلیف دیے وہ پاکستان کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ تھے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سرکاری ملازمین خوشحال ہو گئے تھے۔ اس وقت پیپلز پارٹی بے شک اقتدار میں نہیں ہے لیکن ”بادشاہ گر” کا منصب اسی کے پاس ہے۔ حکومت نے اپنی عاقبت نااندیشی کے سبب بلاول بھٹو کو ایک طرح سے فُل ٹاس گیند پھینک کر چھکا لگانے کا سنہری موقع دے دیا ہے۔ وہ اس موقعے کو ضائع نہیں جانے دیں گے۔
ابھی گزشتہ ہفتے ہی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران صدرآصف علی زرداری بھی حکومت کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معقول اضافہ کرے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے سرکاری ملازمین خوشحال ہیں۔ پیپلز پارٹی ان ملازمین کو ہر بجٹ پر وفاق سے زیادہ مراعات دیتی رہی ہے۔ سرکاری ملازمین کے بارے میں حکومت اور بلاول کے عزائم میں واضح فرق ہے۔ بلاول بھٹو اس مرتبہ بھی ہمیشہ کی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن اور مراعات میں اضافے کے لیے ضرور اسٹینڈ لیں گے۔ وہ پنجاب میں اسپیس نہ ملنے پر مسلم لیگ ن سے پہلے ہی ناراض ہیں۔ ان کے لیے یہ نادر موقع ہے کہ حکومت کو مجبور کر کے اپنے حامیوں کی تعداد میں بڑا اضافہ کرنے کی کوشش کریں۔ محمد اورنگ زیب اور میاں شہباز شریف کو اپنی خواہشات کے برعکس سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کرنا ہی ہوگا۔ ورنہ بلاول بھٹو وفاقی بجٹ کبھی پاس نہیں ہونے دیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔