جعفر ایکسپریس اغوا کے خونیں ڈرامے کو لفظوں میں بیان کریں تو چند جملے بنتے ہیں لیکن ان چندجملوں سے ان گنے چنے لفظوں سے وہ خون میں رنگی تصویر کہاں بنتی ہے جو آنکھوں سے ہٹتی ہی نہیں۔ وہ تمام روداد کہاں بیان ہوسکتی ہے جو ان یرغمال مسافروں مردوں عورتوںبچوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو ساری زندگی ایک بھیانک خواب کی طرح یاد رہے گی۔ چند فٹ کی دوری پر کھڑی موت کو دیکھنا آسان ہے کیا؟ لمحہ لمحہ اس خوف میں جینا کہ کون سا آئندہ لمحہ سینے کو چیرتی گولی کی طرح آملے گا، ٹھیک سے کہاں سمجھایا جاسکتا ہے۔ وہ کیفیت جو ساری زندگی میں ناقابلِ فراموش رہے گی، اس کے لیے لفظ کس لغت سے تلاش کیے جائیں؟
ٹرین اغوا کی ابتدائی خبروں سے لے کر آپریشن کی تکمیل کی اطلاع تک دل منوں وزن تلے دبا رہا۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ بار بار آنکھیں اسی لق و دق ویرانے میں لے جاتی تھیں جہاں بھوکے پیاسے نڈھال مرد عورتیں بچے بنجر پہاڑوں سے گھری وادی میں بے گناہی کی سزا بھگت رہے تھے۔ کتنے لوگ روزے سے تھے لیکن افطار کے لیے صرف بندوق کی گولیاں تھیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کتنے شہید روزے کی حالت میں اپنے رب سے جاملے ہوں گے۔ بے گناہی کی موت، مسافرت کی بے کسی اور روزے کی حالت۔ ان کے اجر میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟
ابتدائی اطلاعات ہی ایسی تھیں کہ دل اور دماغ بڑی تعداد میں شہادتوں کے سانحے کے لیے تیار ہونے لگا تھا۔ چار سو سے زائد مسافر، ناقابلِ رسائی علاقہ، دہشت گردوں کی بڑی تعداد، سکیورٹی اہلکاروں کی موجودی اور خود کش حملہ آوروں کا مسافروں کے بیچ موجود ہونا۔ یہ سب مل کر ایک ایسی تصویر بناتے تھے جسے دیکھنے سے ہی جھرجھری آتی تھی۔ دہشت گرد پوری تیاری سے آئے تھے، ایسے میں جو کچھ بھی ہوتابعید از قیاس نہیں تھا لیکن جب آپریشن مکمل ہوا اور بتایا گیا کہ تمام دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں اور آپریشن کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تو بہت دیر تک اس بات پر یقین نہیں آیا۔ بتایا گیا کہ آپریشن سے قبل جن مسافروں کو دہشت گردوں نے شہید کردیا تھا جن کی تعداد 26تھی، ان کے سوا کوئی اور جان نہیں گئی تو یہ بھی ناقابلِ یقین سی بات تھی۔ ان شہدامیں وہ تین ایف سی کے جوان بھی شامل تھے جو علاقے کی ایک سکیورٹی چوکی پر مامور تھے اور جنہیں ٹرین کی آمد سے قبل نشانہ بنایا گیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی کانفرنس میں پورے آپریشن کی تفصیلات بتائی گئیں اور بازیاب ہونے اور شہید ہونے والوں کے بارے میں بتایا گیا۔ شاید مزید تفصیلات بھی آئیں لیکن اگر یہ تفصیلات حتمی ہیں تو یہ پوری آپریشن ٹیم اورپاک فوج، ایس ایس جی، ایف سی، فضائیہ وغیرہ کی بہت بڑی اور غیر معمولی کامیابی ہے۔ اتنے مشکل آپریشن کو اتنی کامیابی سے مکمل کرنا پیشہ ورانہ مہارت کے بغیر ممکن نہیں۔ خاص طو رپر ایسی صورت میں جب خود کش حملہ آور مسافروں کے بیچ تیار بیٹھے ہوں۔ ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کا خاص طو رپر ذکر کیا گیا۔ انہیں پوری قوم کی طرف سے بھرپور داد و تحسین ملنی چاہیے۔
کئی تجزیہ کاروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بہت سے یرغمالی دہشت گردوں کی طرف سے چھوڑ دیے گئے تھے اور ایک دو تجزیہ کار اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ تیس چالیس دہشت گردوں کا 400سے زائد مسافروں کو کنٹرول کرنا مشکل تھا اس لیے انہیں مجبوراً رہا کر دیا گیا۔ یہ تجزیہ غلط ہے۔ ابتدئی طور پر جیسا کہ عینی شاہدین نے بتایا کہ بلوچ باشندوں کو الگ کرلیا گیا تھا اور انہیں لسانی بنیاد پر رہا کر دیا گیا۔ جس عصبیت کی بنیاد پر دہشت گرد یہ سب کارروائیاں کرتے ہیں، اس کا مقصد بھی کسی پر رحم نہیں بلکہ بلوچوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے لیکن باقی افراد کو اپنی مرضی سے رہا کردینا کسی طرح قرین قیاس نہیں ہوسکتا۔ یہی یرغمالی ان کا اصل ہتھیار تھے۔ انہی کی بنیاد پر تو وہ اپنے مطالبات پیش کر رہے تھے اور وہ جن تیاریوں کے ساتھ آئے تھے، کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی تعداد صرف تیس چالیس ہے اور مسافر سینکڑوں میں ہیں، انہیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ سب ان کے علم میں تھا۔حقیقت یہ ہے کہ یرغمالیوں کو انہوں نے چھوڑا نہیں، ان سے چھڑایا گیا ہے۔ جب نشانہ بازوں نے ایک ساتھ ان سب حملہ آوروں کو اڑا دیا جو اصل خطرہ تھے توباقی دہشت گردوں کیلئے یہ غیر متوقع تھا، وہ خود فوج کی گولیوں کی زد میں تھے، چنانچہ اس افراتفری میں یرغمالیوں کو بھی بھاگنے کا موقع مل گیا اور جس ٹولی کا جدھر رخ ہوا لوگ بھاگ گئے۔ یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ ابتدائی معلومات کے برعکس ٹرین سرنگ میں نہیں تھی۔ ورنہ وہاں سے یرغمالیوں کا نکلنا مشکل ہوجاتا اور حملہ آوروں کو نشانہ بنانا بھی۔ بظاہر ٹرین کے پاس اور میدان میں موجود دہشت گرد 33تھے جو سب مار دیے گئے لیکن پہاڑوں پر بیٹھے ہوئے لوگ الگ ہوں گے جوآپریشن کے بعد بھاگ گئے ہوں گے۔ دہشت گردو ں کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں لگتا کہ زیادہ سکیورٹی اہلکار مارے گئے یا بڑی تعداد میں یرغمالی پہاڑوں پر لے جائے گئے اور وہ اب تک ان کے پاس ہیں۔ ممکن ہے ایسے چند لوگ رہے ہوںیا اب بھی ہوں لیکن اگربڑی تعداد میں ایسا ہوتا تو اب تک ان کی تفصیلات، تصاویر اور وڈیوز وغیرہ آچکی ہوتیں۔ ایک لاش کا چھپانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہت بڑی تعداد کا چھپایا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ نہ مسافروں کانہ سکیورٹی اہلکاروں کا۔
کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی اس نئی لہر نے پاکستان کو خون میں نہلایا ہے۔ روز ہی وحشت ناک اطلاعات آرہی ہیں۔ دہشت گردوں سے مقابلے کی خبریں آتی ہیں اور جوان شہید ہورہے ہیں لیکن مجھے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان شاء اللہ پاکستان اس خونچکاں دور سے بھی اسی طرح کامیاب نکلے گا جس طرح پچھلے ادوار میں سے نکلا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ افغانستان پر روسی قبضے کے دنوں میںیعنی 80کی دہائی میںجب کے جی بی اور خاد بہت فعال تھیں، کے پی اور بلوچستان میں ہر روز دھماکے ہوا کرتے تھے۔ اس وقت کی افغان حکومت اور روسی حکومت ہر ممکن طریقے سے پاکستان میں خون بہانے میں لگی ہوئی تھیں۔ پاکستان اس وقت جوہری طاقت نہیں بنا تھا اور روسی فضائیہ کے جہاز پاکستان کے اندر آجایا کرتے تھے۔ انہیں روکنے کے لیے نہ پاکستان کے پاس طیارے تھے نہ میزائل۔ وہ سنگین ترین وقت پاکستان نے بہت مشکل لیکن بہت سرخروئی کے ساتھ گزارا۔ موجودہ وقت اس کے مقابلے میں اتنا کڑا نہیں ہے۔ مجھے محسو س ہوتا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے ایما پر بی ایل اے کے دہشت گردوں کی یہ کارروائی انجام کار انہی کے گلے پڑ رہی ہے۔ اول تو اس کارروائی میں ان کے مقاصد پورے نہیں ہوئے اور ان کی شکست ہوئی ہے۔ دوسری پوری دنیا میں اس دہشت گردی کی مذمت کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، چین، روس، امریکا سمیت ہر جگہ اس کی مذمت کی گئی ہے۔ تیسرے اس واقعے کے بعد بظاہر بلوچستان میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز ہوگااور بی ایل اے کے نیٹ ورک کو توڑا جائے گا۔ دشمن ممالک کی سرگرمیاں تو ایک طرف، دکھ ہوتا ہے جب اپنے لوگ بھی کھلی حقیقت کو دشمن کے پروپیگنڈے کے زیر اثر توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ مخالفت کو ملک مخالفت بنانا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
ضرورت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں، تمام معاشرتی طبقات اور تمام ادارے مل کر دہشت گردی کا مقابل کریں۔ بلوچستان کی جائز شکایا ت فوری دور ہوں۔ لاپتا افراد میں جن کے کیس باقی ہیں، انہیں حل کیا جائے اور بلوچ عوام کے دل جیتنے کی تدابیر کی جائیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دہشت گرد مٹھی بھر ہیں اور کروڑوں بلوچ پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں۔ نفرت پسند محبت کرنے والوں کے ساتھ نہیں، نفرت کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔