خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی ایک نجی یونیورسٹی کے دو طلبہ طلحہ الیاس اور ثاقب اکرام نے نہایت منفرد اور کارآمد خصوصیات والا ایسا ہیلمٹ تیار کیا ہے جو حادثے کی صورت میں فوری طور پر ایمبولینس کو طلب کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی حادثے اور جائے وقوع کی اطلاع کر سکتا ہے۔
اس ہیلمٹ میں ایک حیرت انگیز خوبی یہ بھی ہے کہ اگر بائیک سوار حادثے کے بعد غنودگی کا شکار ہو گا تو ہیلمٹ میں میں نصب الارم خود بخود بجنا شروع ہو جائے گا۔ ایک مزید خوبی اس ہیلمٹ کی یہ ہے کہ اس سیفٹی ہیلمٹ کے ذریعے لوکیشن کی تلاش بھی ممکن ہوگی۔ ایک بہت بڑی خصوصیت اس ہیلمٹ کی یہ بھی ہے کہ اس میں ایسی جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت ہیلمٹ پہنے بغیر بائیک اسٹارٹ ہی نہیں ہو گی۔ یہ آخری خوبی ہیلمٹ کے استعمال کو فروغ دینے میں یقینا بڑی ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
دونوں طلبہ کی یہ تخلیق ایک بڑا کارنامہ ہے جس کی حکومتی سطح پر پذیرائی ہونی چاہیے۔ آئندہ بننے والے ہیلمٹ اگر اس ٹیکنیک اور ٹیکنالوجی کے تحت بنائے جائیں گے تو حادثے کی صورت میں ان کے استعمال سے بروقت طبی امداد کا حصول ممکن ہو جائے گا جس سے بہت سی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔ سالِ رواں کے پہلے ڈیڑھ ماہ میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے سو سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں بڑی تعداد موٹر سائیکل سواروں کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آئندہ سے ہر موٹر سائیکل کی فروخت پر خریدار کو ایسا ہیلمٹ بھی لازمی دیا جائے، چاہے اس ہیلمٹ کی قیمت موٹر سائیکل کی قیمت میں شامل کر دی جائے۔
ہمارے ہاں موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ استعمال نہ کرنا ایک عام بری پریکٹس ہے۔ کئی بار لوگوں کو ہیلمٹ کی افادیت سے آگاہی کی مہم چلائی گئی۔ گزشتہ سال پہلے بھی اس پر سختی سے عمل کروانے کی کوشش کی گئی کہ بغیر ہیلمٹ کوئی شخص موٹر سائیکل لے کر نہ نکلے مگر اس چندروزہ مہم کے خاطرخواہ نتائج نہ نکل سکے۔ عوام صرف سختی کی زبان سمجھتے ہیں، اگر ان سے یہ امید رکھی جائے کہ رضاکارانہ طور پر قانون کی پابندی کریں گے تو یہ آپ کو ہمیشہ مایوس کریں گے۔ جس طرح عام سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہوا ڈرائیور جب موٹروے پر گاڑی چڑھاتا ہے تو اچانک بندہ جاتا ہے کہ اسے بھاری جرمانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی طرح موٹرسائیکل سوار تب ہیلمٹ کا استعمال کرتا ہے جب اسے پکڑے جانے اور چالان ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اگر ٹریفک پولیس چندروزہ مہم کو مستقل اپنا لے تو خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔ ویسے یہاں بھی ہم بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں کے عجیب رویّے دیکھتے ہیں۔ پولیس کے رکنے کے اشارے پر ان کی پہلی کوشش تو بھاگ جانے کی ہوتی ہے۔ کچھ نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو فوراً ہی جیب سے موبائل فون نکال کر کسی پولیس والے کا نمبر ملا کر بات کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ منچلے تو حلقہ کے ایم پی اے یا ایم این اے سے بات کروا دیتے ہیں۔ کئی نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو روکے جانے پر ہاتھ جوڑتے اور اپنی غربت کا رونا روتے نظر آتے ہیں تاکہ رحم کھا کر پولیس والا اس کے جرم کو نظر انداز کردے۔
یاد رکھیے! دنیا میں جتنے بندے موٹر سائیکل نے نگلے ہیں اور کسی چیز نے اتنے بندے نہیں مارے۔ پاکستان میں روزانہ اوسطاً دس بندے اپنی زندگی موٹر سائیکل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں جبکہ موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے بہت سے حادثات ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکل حادثات میں روزانہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن میں سے کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔
یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ تیز رفتار موٹر سائیکل جب کسی چیز سے ٹکرا جاتی ہے، تو اس کے ٹکرنے کی رفتار وہی ہوتی ہے جس رفتار سے موٹر سائیکل چل رہی ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر موٹر سائیکل 60کلو میٹر کی رفتار سے دوڑ رہی ہے تو اس کے اوپر بیٹھا بندہ بظاہر تو ساکن ہے لیکن اردگرد کے ماحول کے حساب سے اس بندے کی اسپیڈ 60کلو میٹر ہوتی ہے۔ اچانک رکاوٹ، مزاحمت یا بریک کی وجہ سے وہ بندہ 60کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹرسائیکل سے آگے نکل جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب کوئی بھی چیز اڑتی ہے تو اس کا بھاری حصہ پیچھے رہ جاتا ہے اور ہلکا حصہ آگے کی طرف ہو جاتا ہے۔ انسانی جسم کا بھاری حصہ چھاتی سے نیچے ہے۔ ادھر ہڈی بھی وزنی ہوتی ہے اور گوشت و انتڑیاں بھاری ہوتی ہیں لہٰذا حادثے کی صورت میں سر خود بخود آگے کو ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر سب سے پہلے سر ہی سڑک یا کسی سامنے والی چیز سے ٹکراتا ہے۔ سر پر چوٹ لگنے کا نتیجہ فوری موت یا بے ہوش ہوجانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر رکھنے کی بات ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان میں سر کی چوٹ (Head injury )کے ڈاکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو لوگ غریب ہونے کی وجہ سے ہیلمٹ نہیں خرید سکتے، وہ ڈیڑھ دو لاکھ کی موٹر سائیکل بھلا کیسے خریدتے ہیں؟ حسب ضرورت اس کی مرمت کہاں سے اور کیسے کرواتے ہیں؟ اور اس میں پٹرول ڈلوانے کے پیسے کس طرح ادا کرتے ہیں؟
یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ہم لوگ دو ہزار روپے جرمانہ نہیں دے سکتے، اسے ہم خود پر ظلم سمجھتے ہیں مگر کفن دفن، تنبو قناتوں اور مہمانوں کے کھانے کا انتظام آسانی سے کر لیتے ہیں۔ دو ہزار جرمانہ نہیں دے سکتے مگر سر کی چوٹ کے اصل تعین کے لیے MRI کی فیس دس ہزار روپے آسانی سے دے لیتے ہیں۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ دو ہزار روپے کا ہیلمٹ ہی خرید لیا جائے؟
یاد رکھئے جان بہت قیمتی چیز ہے۔ ہیلمٹ موٹر سائیکل چلاتے وقت واحد سیفٹی ہے۔ سر بچ جائے، بندہ بچ جاتا ہے۔ ہڈیاں جڑ جاتی ہیں۔ زخم بھر جاتے ہیں۔ سر ٹوٹ جائے تو دوسرا سر نہیں ملتا۔ بہتر ہے کہ اپنا سر توڑنے کی بجائے دو ہزار کا ہیلمٹ توڑ لیں۔
شاباش طلحہ الیاس اور ثاقب اکرام! آپ کی ایجاد حقیقت میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔