میدانِ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب

ہجرت کے بعد کفار سے مسلمانوں کا پہلا معرکہ میدانِ بدر میں برپا ہوا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم 313 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر میدانِ بدرمیں اُترے۔ مسلمانوں کی صفوں کو مرتب کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمدو ثنا کی، پھر یہ خطبہ اِرشاد فرمایا:
ترجمہ: ”لوگو! میں تمہیں اُسی چیز کی طرف رغبت دلاتا ہوں جس کی رغبت خود اللہ عزوجل نے دلائی ہے۔ اسی طرح میں تمہیں انہی چیزوں سے روکتا ہوں جن سے اللہ عزوجل نے تمہیں روکا ہے۔ وہ جلال و بلندی والا عظیم الشان خدا حق باتوں کا ہی حکم فرماتا ہے۔ وہ سچائی کو پسند کرتا ہے۔ بھلائیاں کرنے والوں کو وہ اپنے پاس بڑے مرتبے عطا فرماتا ہے۔ اسی لیے ان کا ذکر مذکور ہوتا ہے اور اسی طرح انہیں فضیلتیں ملتی ہیں۔ سنو! حق کی منزلوں میں سے ایک منزل پر آج تمہارے قدم آپہنچے ہیں۔ یہاں صرف وہی کام مقبول ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ارادے سے کیا جائے گا۔ جنگ کے موقع پر صبر ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ رنج و غم کو دور کردیتا ہے اور ان سے نجات دیتا ہے، ساتھ ہی آخرت کی نجات بھی میسر ہوجائے گی۔ تم میں خدا کا پیغمبر موجود ہے جو تمہیں ڈراتا بھی ہے اور حکم بھی دیتا ہے (امر و نہی دونوں مراد ہیں)۔ دیکھو! آج ایسی غلطی نہ کر بیٹھنا جس سے اللہ تعالیٰ تم سے ناخوش ہوجائے۔ فرمانِ خدا ہے کہ اللہ کی ناراضگی کا وبال اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہاری آپس کی ناراضی کا ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احکام پر جو اپنی کتاب میں تمہیں دے چکا ہے اور جو نشانیاں وہ تمہیں دکھلا چکا ہے، ذلت کے بعد اس نے تمہیں جو عزت عطا فرمائی ہے اس کو پیشِ نظر رکھو۔ پس تم احکامِ خدا پر صبر و عزم کے ساتھ جم جاﺅ۔ ربُّ العالمین تم سے راضی ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے اس جہاد کے موقع پر ایسی دعائیں کرو کہ جنت و مغفرت کا وعدہ جو اُس نے تمہارے ساتھ کر رکھا ہے پورا ہوجائے۔ بے شک وعدہ خداوندی اٹل ہے۔ بے شک کلامِ خدا راست ہے، بے شک اس کے عذاب بڑے ڈراونے اور نہایت سخت ہیں۔ میں خود بھی اور تم سب بھی اُسی حیّ و قیوم زندہ و قائم خدا پر بھروسا رکھتے ہیں جس کی طرف ہم پناہ کے لیے جھکتے ہیں اور جس کا ہم سہارا لیتے ہیں۔ اسی پر ہم توکل کرتے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ ہماری اور جملہ مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔“