ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کو اُن کے چوتھے مقدس ترین مقام سے بھی بے دخل کرنے کی سازشیں تیز کردی ہیں۔
مقبوضہ اسرائیل کے شہر’ الخلیل‘ میں واقع حرم ابراہیمی سے مسلمانوں سے دور کرنے کی کوششیں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ اسرائیلی قابض فوج نے رمضان المبارک کے دوران بھی ابراہیمی مسجد پر کڑی قدغنوں، بندشوں اور مسجد آنے والوں پر پابندیاں بڑھا دی ہیں۔ حتیٰ کہ جمعے کے روز بھی رکاوٹوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تاکہ نماز جمعہ کے لیے مسجد ابراہیمی آنے والوں کو ڈرایا دھمکایا جا سکے۔ ہر آنے والے دن مسجد ابراہیمی پر یہودی کنٹرول بڑھایا جارہا ہے۔
مسجد ابراہیمی مقبوضہ مغربی کنارے کے قدیمی شہر الخلیل میں قائم ہے۔ یہ صدیوں پرانی مسجد ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کی جاتی ہے۔ اس لیے فلسطینی مسلمانوں کے ہاں اس مسجد کی قدر و منزلت بھی غیرمعمولی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران تمام تر اسرائیلی رکاوٹوں کے باوجود سینکڑوں مسلمان اس مسجد میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں، جبکہ اسرائیلی فوج اور انتظامیہ کی طرف سے رمضان المبارک کے دوران اس مسجد تک مسلمانوں کی آمد میں زیادہ رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ مسجد ابراہیمی کے منتظم معتز ابواسننہ نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ مسجد کا انصرام اسلامی اوقاف کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہے، حتیٰ کہ جمعے کے روز بھی ایسا کرنے کو تیار نہیں بلکہ جمعے کے روز سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی زیادہ کردی جاتی ہے تاکہ عام فلسطینی نوجوان خوفزدہ ہو کر مسجد ابراہیمی آنے کا نہ سوچیں۔ حالانکہ جمعے کو مسجد ابراہیمی میں اب لوگوں کی آمد قدغنوں کی وجہ سے کم ہورہی ہے۔ پچھلے جمعے کی نماز فجر کے وقت نمازیوں کی تعداد اس خوف کی وجہ سے صرف 200 کے قریب رہ گئی تھی۔ اسرائیلی انتظامیہ یہ تمام تر رکاوٹیں اس کے باوجود ڈال رہی ہے کہ مسجد ابراہیمی میں ہونے والے قتل عام کے بعد اسرائیلی انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا تھا کہ جمعہ اور رمضان کے دوران مسجد کا کنٹرول اسلامی اوقاف کے حوالے کیا جائے گا، تاکہ اس دوران زیادہ سے زیادہ نمازی مسجد میں بے خوف و خطر آسکیں۔
معتز ابواسننہ کا کہنا ہے یہودی فوج جان بوجھ کر مسجد آنے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش میں رہتی ہے کہ مسجد میں مسلمانوں کا تعلق بحال نہ رہ سکے۔ الخلیل کے جنوبی علاقے کی رہائشی ام محمد نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جگہ جگہ قائم اسرائیلی فوج کے چیک پوائنٹس لوگوں کی مسجد ابراہیمی تک رسائی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ اس سال ان چیک پوائنٹس نے مزید سختیاں بڑھا دی ہیں۔ ان چیک پوائنٹس کی وجہ سے مسجد ابراہیم تک پہنچنے میں راستے لمبے ہو گئے ہیں۔ بعض اوقات مسجد پہنچنے میں ہی چار چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے مسجد ابراہیمی کی ناکہ بندیوں کے علاوہ یہودی آباد کار بھی مسجد ابراہیمی جانے والوں کو جگہ جگہ تنگ کرتے اور نشانہ بناتے ہیں۔ حتیٰ کہ مسجد ابراہیمی جانے والوں کی علاقے میں جائیدادوں کو بھی مسمار کر دیا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیراتی کمیٹی کے سربراہ عماد حمدان شہریوں کے قدیمی شہر میں مسجد سے تعلق کو بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ حماس کے سیاسی بیورو کے رکن اور علاقے کے لیے رہنما ہارون نصرالدین نے اپیل کی ہے کہ عوام اسرائیلی رکاوٹوں کے باوجود مسجد ابراہیمی تک پہنچنے کا اہتمام کریں۔ واضح رہے کہ یہ مسجد مغارة الخلیل نامی غار کے اوپر بنائی گئی ہے۔
یہ الخلیل شہر میں ایک مذہبی اور تاریخی مقام ہے۔ یہ جگہ تینوں آسمانی مذاہب: اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے نزدیک مقدس ہے اور دنیا کی قدیم ترین آباد اور مقدس جگہوں میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کے یہاں حرمین شریفین اور مسجد اقصیٰ کے بعد یہ چوتھا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کی اہلیہ حضرت سارہ اور ان کے بیٹوں حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حضرت رفقہ اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حضرت لیہ کی قبروں پر مشتمل ہے۔ اس غار کے بارے میں خیال ہے کہ یہ انبیاءکی قبروں کی جگہ ہے۔ موجودہ عمارت پہلی صدی قبل مسیح میں بادشاہ ہیرود اعظم کے دور میں تعمیر کی گئی اور اِسلامی ادوار میں اس میں مختلف تعمیراتی اضافے کیے گئے۔ مملوک دور میں اس میں میناروں کا اضافہ کیا گیا اور اس جگہ کو ایک نمایاں اسلامی مسجد کے طور پر مزین کیا گیا۔
جب ساتویں صدی عیسوی میں عرب فلسطین میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس غار کو ’مشہد ابراہیم‘ کا نام دیا، کیونکہ حضرت ابراہیم کو وہ اپنا جد امجد سمجھتے تھے۔ اسی مقام پر انہوں نے حرم ابراہیمی شریف تعمیر کیا، جسے مسلمانوں کے لیے مکہ، مدینہ اور القدس کے بعد چوتھی اہم ترین جگہ قرار دیا جاتا ہے۔ عربوں نے صدیوں تک اس جگہ کا خیال رکھا، یہاں تک کہ 1967ء میں اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور غار پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اسرائیل نے اس میں تبدیلیاں کیں اور یہودیوں کو یہاں آنے کی اجازت دی۔ اسرائیلی حکومت نے الخلیل کے قریب ’کریات اربع‘ نامی یہودی بستی بھی قائم کی۔ حرم ابراہیمی شریف کو مختلف حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سب سے بدترین حملہ 1994ء میں ہوا، جب ایک یہودی دہشت گرد آبادکار ’باروخ گولڈسٹین‘ نے مسلمانوں پر اُس وقت حملہ کیا جب وہ نماز ادا کررہے تھے اور درجنوں نمازیوں کو شہید کردیا، جبکہ مسلمانوں کو کسی قسم کی حفاظت فراہم نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ اسرائیلی حکام نے حرم ابراہیمی کے ارد گرد موجود درجنوں فلسطینی گھروں اور عمارتوں کو بھی مسمار کر دیا تاکہ یہودی آباد کاروں کے لیے ’کریات اربع‘ سے حرم تک رسائی کو آسان بنایا جاسکے۔
نومبر 2002ء میں فلسطینیوں نے اپنے مقدس مقام کے دفاع میں ایک جرات مندانہ جنگ لڑی، جس میں انہوں نے حرم کے قریب 12 اسرائیلی فوجیوں اور آبادکاروں کو ہلاک کیا۔ اس واقعے کے بعد شارون حکومت نے فلسطینیوں کے گھروں کو بڑے پیمانے پر مسمار کرنے کا حکم دیا تاکہ نام نہاد صہیونی ”نمازیوں“ کے راستے کو یہودی آباد کاروں کے لیے صاف کیا جاسکے۔
