ٹرین حملہ: درست ردعمل کیا ہونا چاہیے؟

جعفر ایکسپریس ٹرین پر دہشت گردوں کے حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا واقعہ ایسا خوفناک، اچانک اور ہلا دینے والا تھا کہ پاکستانی قوم ابھی تک اس کے شاک سے باہر نہیں آئی۔ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یوں عسکریت پسند ایک مسافر ٹرین پر چڑھ دوڑیں گے اور رمضان کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے متعدد روزے دار مسافروں کو نہایت بے دردی اور سنگدلی سے بھون ڈالیں گے۔ اِس حملے کے کئی پہلو ہیں، بعض کی حساسیت کے پیش نظر ان پر شاید پبلک فورمز، میڈیا پر بات کرنا بھی مناسب نہ ہو۔ کچھ غلطیاں بہرحال ہوئی ہیں، انٹیلی جنس کی ناکامی بڑی نمایاں ہے۔ ذمہ داران اس چیز کو دیکھ رہے ہوں گے، غلطیوں کی اصلاح کی جا رہی ہوگی۔ ویسے یہ بہرحال ہر ایک کو ماننا پڑے گا کہ حملہ آوروں نے جس طرح یرغمال مسافروں کے درمیان خودکش بمبار بٹھائے ہوئے تھے، ایسے میں ان بدبختوں کو یوں مہارت، صفائی اور ہوشیاری سے خاتمہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ فورسز کے سنائپرز اور کمانڈوز کو کریڈٹ دینا چاہیے، ورنہ بہت سے لوگ اگلے ایک دو دن تک یہ معرکہ چلتے رہنے کی توقع کر رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گرد بھی تین چار دن کے لئے کھانے پینے کا سامان ساتھ لائے تھے اور بہت سا ایمونیشن بھی۔ فورسز کے برق رفتار آپریشن نے ان کا ایک نہ چلنی دی اور وہاں موجود سب کے سب 33دہشت گرد مارے گئے۔

اس واقعے کی ہولناکی اپنی جگہ مگر میں نے محسوس کیا کہ اس واقعے پر لوگوں کی بڑی تعداد دو انتہائوں پر چلی گئی۔ ایک حلقے نے اتنی بڑی سربیت اور درندگی آمیز ظلم پر بھی قاتلوں کی کھلی اور غیر مشروط مذمت کے بجائے اگر، مگر، چونکہ، چناچہ کی آڑ لی۔ انہوں نے بلوچ قوم پرست تاریخ گنوائی، ایوب خان سے بھٹو آپریشن اور پھر نواب اکبر بگٹی کی موت سے آج تک کے حالات واقعات پر بھاشن دیا۔ ان لوگوں نے قاتلوں کو رعایت دینے کی کوشش کی۔ فیس بک پر چونکہ ہر کوئی بزعم خود دانشور بنا بیٹھا ہے، اس لئے ان لوگوں نے دانشور بن کر بی ایل اے وغیرہ سے مذاکرات کی باتیں کی، یہ بھی کہ ان کے رویے کے اسباب پر غور کرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے خیال میں یہ ایک فکری مغالطہ ہے۔ قوم پرست سیاست، مطالبات اور ان کے سیاسی احتجاج کو قتل وغارت اور صریحاً دہشت گردی سے الگ رکھنا چاہیے۔ یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ سیاسی احتجاج کا ہر ایک کو حق ہے، دہشت گردی اور دوسروں کو قتل کرنے کا کبھی کسی کو حق نہیں مل سکتا۔ محرومی، شکایات، ذاتی مسائل بھی قتل کا سبب نہیں بن سکتے۔ اگر بلوچستان میں مسائل ہیں، مسنگ پرسنز یا دیگر معاملات تو کیا یہ عام لوگ، مزدوری کرنے والے کیا ان مسائل کے ذمہ دار ہیں ؟ جو اپنے گھروں کو چھوڑ کر صرف روزی کمانے سینکڑوں، ہزاروں میل دور آئے ہیں، دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں تاکہ بچوں کے لیے روٹی کما سکیں، ان پر کوئی کیسے ظلم کر سکتا ہے، انہیں کیسے گولیاں مار سکتا ہے؟ جو لوگ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر کرسی سے ٹیک لگا کر دشت گردوں سے امن کی بھیک مانگنے، ان سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ صرف پانچ منٹ نکالیں اور ٹھنڈے دل و دماغ سے پورے انصاف سے یہ تصور کریں کہ جعفر ایکسپریس میں ان کے سگے بھائی یا بیٹا یا بزرگ والد سفر کر رہا تھا۔

بی ایل اے کے درندے حملہ آور ہوئے، مسافروں کو یرغمال بنایا، الگ الگ کر کے دائروں میں بٹھایا اور پھر ایک ایک کر کے اٹھاتے اور پورا برسٹ اس پر چلا دیتے۔ پھر چھلنی لا ش وہیں پھینک دیتے۔ جو فوری نشانہ نہیں بنے، وہ روزے دار ہونے کے باوجود چوبیس گھنٹوں تک بھوکے پیاسے پل پل آتی موت کا سوچ کر جیتے مرتے رہے۔ اپنے بچوں کا واسطہ دے کر زندگی بخش دینے کی منت کرنے والے مسافر انتہائی سفاکی، درندگی سے نشانہ بنا دیے جائیں۔ کیا چند درجن بلوچ مسافروں اور فیملیز کو چھوڑ دینے سے قاتلوں کی اخلاقی برتری ثابت ہوگئی؟ نہیں ہرگز نہیں۔ دراصل یہ دہشت گرد نسل پرست ہیں۔ بلوچ نسل پرست۔ جرمنی کے نازیوں کی طرح۔ ان حملہ آوروں کے نزدیک ہر غیر بلوچ کیڑے مکوڑے سے بھی بدتر تھا۔ انصاف سے دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ یہ منظر سوچ کر بھی آپ ان درندوں سے بات کرنے، امن کی بات کا کہیں گے؟ فرق صرف یہ ہے کہ آپ اصل اور خوفناک حقیقت کا ادراک نہیں کر رہے۔ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ مرنے والے مظلوم مسافروں کو اپنا نہیں سمجھ رہے۔ بھائی صاحب درندوں اور زومبیز سے ڈائیلاگ نہیں ہو سکتا۔ قا تلو ں سے مذاکرات نہیں ہوتے۔ نسل پرست جنونیوں کو دلیل نہیں دی جاتی۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ خاکسار بلوچستان میں مسنگ پرسن ایشو کا سخت ناقد رہا ہے، بے شمار بار اس کے خلاف لکھا۔ آج بھی یہی کہوں گا کہ بلوچستان میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔ مقامی آبادی کے مسائل حل کئے جائیں۔ وہاں حقیقی نمائندہ صوبائی حکومت بنے۔ یہ سب ہو اور ضرور ہو۔ بات مگر یہ ہے کہ ان مسائل کی وجہ وہاں کے عام، غریب لوگ نہیں۔ مزدوری کے لئے وہاں گئے سندھی، پشتون، سرائیکی، پنجابیوں کا کیا قصور ہے؟ وہ بے چارے روزی کی خاطر پردیس میں گئے۔ درندوں نے انہیں کاٹ ڈالا۔ کسی بھی قوم پرست سے بات کی جا سکتی ہے، ماہرنگ بلوچ سے ڈائیلاگ اور مذاکرات ہو سکتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ قا تلوں اور درندوں سے مگر بات نہیں ہو سکتی۔ ان کا صفایا کرنا پڑے گا، نیٹ ورک توڑنا اور قوت ختم کرنا ہو گی۔ ان کا ہر حال میں خاتمہ ہونا چاہیے۔ جب تک یہ اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آجاتے۔ اسی ٹرین حملہ پر ایک اور طرح کا شدید اور انتہائی ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ پنجاب کا ایک حلقہ مشتعل اور فرسٹریٹ ہو کر یہ بات کر رہا ہے۔ وہ ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے پوری بلوچ قوم کو ہدف بنا رہا ہے۔ یہ کہہ رہا ہے کہ پنجاب نے تو آپ کے ساتھ کیسا فراخدلانہ، مہمان نوازی والا سلوک کیا، بلوچ طلبہ کو اپنے تعلیمی اداروں میں داخلے دیے اور اس کا بلوچستان نے یہ صلہ دیا، وغیرہ۔

یہ بات بھی درست نہیں۔ چند سو یا چند ہزار بلوچ شدت پسندوں یا دہشت گرد گروہوں کے طرزعمل کو ایک کروڑ کے لگ بھگ بلوچستان کے بلوچوں کا نمائندہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ عام بلوچ کا اس قتل وغارت سے کیا تعلق؟ وہ تو بے چارہ مسائل کا شکار اپنی روزی روٹی کی جدوجہد میں لگا ہے۔ ہمارا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ عام بلوچ بلا کے مہمان نواز اور سوئیٹ لوگ ہیں۔ ان کی عزت کریں، وہ جواب میں آپ کو اپنی سرآنکھوں پر بٹھائیں گے۔ میں نے اپنی زندگی میں جو بہترین مہمان نواز اور بلا کے کشادہ دل لوگ دیکھے، ان میں ہمارے بلوچ بھائی سرفہرست ہیں۔ انہیں پنجاب یا پنجابیوں یا پشتونوں، سرائیکیوں سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ بلکہ بلوچستان میں سرائیکیوں کی کئی پاکٹس ہیں، بہت سے بلوچ ہیں جو سرائیکی بولنے والے ہیں، تاہم وہ اپنی شناخت بلوچ ہی رکھتے ہیں جس کا ظاہر ہے انہیں حق حاصل ہے۔ کہنے کا مقصد تھا کہ بلوچ دہشت گرد تنظیموں اور قاتل گروہوں کی مذمت کرتے ہوئے آپ ان عام بلوچوں کے خلاف بات نہ کریں۔ یہ ناانصافی اور زیادتی ہوگی۔

بلوچستان میں ایک بڑی تعداد ان قوم پرست بلوچوں کی ہے جنہیں ریاست سے شکایات ہیں، جنہیں مرکز یعنی تخت اسلام آباد سے شکایات ہیں، انہیں پنجاب کی اشرافیہ سے بھی شکایات ہوسکتی ہیں۔ وہ اپنے علاقے اور لوگوں کی محرومیوں کی بات کرتے، اپنی شکایات بتاتے اور قوم پرست سیاست کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ پُرامن اور سیاسی انداز میں ہے۔ یہ جمہوری طرزعمل ہے۔ اس کا انہیں حق حاصل ہے۔ ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے۔ ان کی شکایات کا ازالہ ہو۔ صوبے میں حقیقی لیڈر شپ کو صوبائی حکومت دی جائے، انہیں اختیارات دیں، اپنے وسائل کے استعمال کرنے کا حق دیں۔ یہ سب بنیادی اور معقول مطالبات ہیں، انہیں ماننا چاہیے۔ ان پر بات ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ، اختر مینگل اور دیگر قوم پرست رہنمائوں سے بات چیت ہونی چاہیے۔ حتیٰ کہ ماہرنگ بلوچ تک سے۔ ان کا لب ولہجہ تند ہو سکتا ہے، مگر بہرحال وہ اپنے مطالبات پرامن سیاسی طریقے سے رکھ رہے ہیں، ان سے ڈائیلاگ ہوسکتا ہے۔ ٹرین حملے نے ہر پاکستانی کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس کا یہ مطلب مگر نہیں کہ ہم اپنے ردعمل میں شدت کا شکار ہوجائیں۔ ہمیں انصاف، اعتدال اور دانشمندی کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔ میانہ روی اور راست روی پر مبنی ردعمل۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔