پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ اگرچہ گزشتہ دہائی میں سکیورٹی فورسز کی کوششوں سے ملک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی تھی مگر حالیہ مہینوں میں ایک نئی لہر نے سر اٹھا لیا ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے حملے، ٹارگٹ کلنگ اور خودکش دھماکے قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ یہ نئی لہر نہ صرف معصوم شہریوں اور سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ ملکی معیشت اور استحکام پر بھی گہرے اثرات مرتب کررہی ہے۔ دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے اور سکیورٹی اداروں کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔
اگر ہم پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ پر مختصر نظر ڈالیں تو پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز افغان جنگ کے دوران ہوا، جب مجاہدین کو امریکی اور پاکستانی مدد حاصل تھی۔ مگر 9/11کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں براہ راست شامل ہو گیا۔ اس دوران جنگجوؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لی، جس کے نتیجے میں ملک کے اندر دہشت گرد گروہ مضبوط ہونے لگے۔ 2007ء کے بعد دہشت گردی میں تیزی آئی اور تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند گروہوں نے ریاستی اداروں، تعلیمی مراکز، عبادت گاہوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت وسیع پیمانے پر کارروائیاں شروع کیں، جن کے نتیجے میں دہشت گردی میں واضح کمی آئی۔ تاہم حالیہ مہینوں میں دہشت گرد گروہ ایک بار پھر فعال ہو گئے ہیں اور انہوں نے سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی مہم تیز کر دی ہے۔ دہشت گردی کے باعث پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں بے گناہ شہری اور سکیورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ سڑکوں، بازاروں اور مساجد میں ہونے والے خودکش حملوں نے ملک میں خوف و ہراس پیدا کردیا۔ عوامی مقامات پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے اور لوگ خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ سرمایہ کاری میں کمی، کاروباروں کی بندش اور غیر یقینی حالات نے معیشت کو کمزور کر دیا۔ مختلف رپورٹس کے مطابق پاکستان کو 2001ء سے اب تک دہشت گردی کے باعث 126ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوچکا ہے۔ دہشت گرد حملوں کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کترانے لگے، جس کی وجہ سے ملکی معیشت بحران کا شکار ہو گئی۔
معاشرتی سطح پر بھی دہشت گردی کے اثرات نہایت تباہ کن رہے۔ فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ ہوا، مختلف مسالک کے درمیان دوریاں بڑھیں اور معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان پیدا ہوا۔ تعلیمی ادارے دہشت گردوں کا خاص ہدف بنے، جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور ہزاروں بچے معیاری تعلیم سے محروم رہ گئے۔ عبادت گاہوں پر حملوں نے مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی عالمی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایک غیر محفوظ ملک سمجھا جانے لگا، جس کی وجہ سے سیاحت، سرمایہ کاری اور سفارتی تعلقات متاثر ہوئے۔ حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ 2021ء میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو دوبارہ متحرک ہوگئے۔ افغان طالبان نے پاکستانی حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں ملنے لگی ہیں۔
بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر علیحدگی پسند گروہ بھی متحرک ہو چکے ہیں، جو خاص طور پر سکیورٹی فورسز اور چینی باشندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں گوادر، تربت اور کوئٹہ میں کئی بڑے حملے کیے گئے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کا سانحہ بھی اسی نئی لہر کا شاخسانہ ہے جس میں دہشت گردوں نے ریل گاڑی کو روک کر عوام کو یرغمال بنایا اور کچھ افراد کو شہید کر دیا جبکہ دیگر کو فورسز نے چھڑا لیا۔ اس کارروائی میں بھی بی ایل اے ملوث تھی۔ ان تنظیموں کو بیرونی حمایت حاصل ہونے کے بھی شواہد ملے ہیں، جس سے ان کی کارروائیاں مزید خطرناک ہو گئی ہیں۔ معاشی بحران اور داخلی عدم استحکام بھی دہشت گردی کے فروغ کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی بلند شرح نے نوجوانوں کو مایوس کر دیا ہے، جس کا فائدہ دہشت گرد تنظیمیں اٹھا رہی ہیں اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے بھرتی کر رہی ہیں۔
پاکستان کو اس نئی دہشت گردی کی لہر سے نمٹنے کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ سب سے پہلے سکیورٹی فورسز کو مزید مضبوط کرنا ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت فوجی کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی چیک پوسٹوں کو مزید مؤثر بنایا جائے اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بہتر کیا جائے تاکہ دہشت گرد حملوں کی روک تھام کی جا سکے۔ افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر معاملات کو واضح کرنا بھی ضروری ہے تاکہ افغان حکومت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے۔ پاکستان میں معاشی استحکام بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جب تک ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل موجود رہیں گے، نوجوان آسانی سے دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے۔
حکومت کو ایسے منصوبے متعارف کروانے ہوں گے جو نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں اور انہیں مثبت سرگرمیوں میں مشغول کریں۔ علمائ، اساتذہ اور میڈیا کو مل کر انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ تشکیل دینا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کے نظریات کو شکست دی جا سکے۔ پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی شدید لہر کا سامنا کر رہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں، لیکن حالیہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت، فوج، پولیس اور عوام سب کو یکجا ہو کر کام کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر پاکستان میں امن، ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کو مزید عدم استحکام اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔