بنگلہ دیش کی نئی سیاسی جماعت 

بنگلہ دیش میں ایک سیاسی تبدیلی آئی ہے کہ جن طلبہ نے سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے خلاف تحریک چلائی تھی، انہوں نے نئی سیاسی جماعت کا علان کیا ہے۔ بنگلہ میں ”جاتیا ناگورک پارٹی“ جسے انگریزی میں سٹیزن نیشنل پارٹی (CNP) کہا جائے گا۔

بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات سے دلچسپی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں کی ”جاتیا ناگورک کمیٹی“ یعنی نیشنل سٹیزن کمیٹی اور کوٹہ سسٹم کے خلاف اینٹی ڈسکریمیشن سٹوڈنٹ موومنٹ کی جدو جہد نے طاقتور اور مطلق العنان وزیراعظم کا تختہ الٹ دیا تھا۔ نئی سیاسی پارٹی انہی دو جماعتوں سے پھوٹی ہے۔ 26سالہ سوشیالوجی کے طالبعلم رہنما ناہد اسلام جو عبوری حکومت میں بطور مشیر شامل رہے اور اب مستعفی ہو چکے ہیں اس جماعت کے کنوینر ہوں گے۔ جبکہ اختر حسین اس کے سیکرٹری کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ابھی کوٹہ سسٹم تحریک کے دیگر مرکزی طالبعلم رہنماو¿ں مثلاً آصف محمود رفعت شاہد حسنات عبداللہ وغیرہ کے بارے میں تفصیلات موجود نہیں۔ اس نئی جماعت کی بنیاد میں اختلافات بھی سننے میں آرہے ہیں لیکن فی الوقت یہی سمجھا جارہا ہے کہ ناہد اسلام ہی اس جماعت کو لے کر آگے کا سفر کریں گے۔
طالبعلم رہنماو¿ں کے لیے اس جماعت کے قیام کا اعلان کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہو گیا تھا۔ اول تو یہ کہ ڈاکٹر یونس کے اعلان کے مطابق 2025ء کے اواخر یا 2026ء میں نئے انتخابات ہوں گے۔ اس لیے وقت کم ہے اور تنظیمی ڈھانچہ بنا کر عملی طور پر انتخابی مہم کیلئے کافی وقت چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عبوری حکومت سے کئی حلقوں کی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ گاہے گاہے یہ خبر بھی آجاتی ہے کہ فوج عبوری حکومت سے خوش نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام میں بھی بے چینی موجود ہے۔ ایسی صورت میں عبوری حکومت کے ساتھ نتھی رہنا اس مخالفت کا ہدف بننے جیسا ہے، اس لیے الگ ہونا بہتر ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ وہ عوامی مومینٹم جو حسینہ واجد کو اقتدار سے نکالنے کے وقت پورے عروج پر تھا، بتدریج تحلیل ہوتا گیا اور ابھی مزید ہوگا۔ طالبعلم یہ مومینٹم ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اور آخری وجہ یہ کہ بہرحال عبوری حکومت نے ایک دن ختم ہونا ہے اور نئے انتخابات سے نئی حکومت برسر اقتدار آئے گی۔ اس وقت ان طالبعلم رہنماو¿ں اور ان کے مقاصد کا کیا ہوگا؟ ان سب وجوہات کی بنا پر ایک نئی سیاسی جماعت ضروری تھی۔ لیکن نئی سیاسی جماعت کو مقبول بنانا اور بھرپور عوامی حمایت حاصل کرنا ایک اہم اور بہت مشکل مرحلہ ہے۔
برصغیر پاک و ہند عام طور پر اور بنگلہ دیش خاص طور پر خاندانی جماعتوں اور خانوادوں کے زیر اثر رہا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن جنر ل ضیا الرحمن کی خاندانی جماعتیں بنگلہ دیش میں اقتدار میں آتی جاتی رہی ہیں۔ حسینہ واجد یا خالدہ ضیا کی بنیادی شناخت یہی ہے کہ وہ شیخ مجیب یا جنرل ضیا الرحمن کے گھرانوں سے ہیں۔ خانوادوں کا یہ اثر ٹوٹتے ہوئے بہت مدت لگتی ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اگلے انتخابات میں یہ اثر ختم ہو سکے گا۔ ان طالبعلموں میں کوئی سیاسی گھرانے سے نہیں ہے۔ دوسرا عنصر ہیرو شپ کا ہے۔ بنگلہ دیش میں شخصی سیاست بہت ہے۔ شیخ مجیب، جنرل ضیا، جنرل حسین ارشاد میں ہیروازم کا عنصر موجود تھا اور 1971ء کے واقعات کی بنا پر وہ خود کو قومی ہیرو کے طو رپر پیش کر چکے تھے۔ نئی طالبعلم جماعت میں یہ ہیرو شپ مفقود رہے گی۔ ناہد اسلام ایک خاص حلقے میں مقبول سہی لیکن وہ قومی ہیرو نہیں ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کی تیسری بڑی ضرورت ایک ایسا بڑا مرکزی رہنما ہوتی ہے جو عوام میں مقبول بھی ہو کرشماتی شخصیت کا حامل بھی ہو اور اس کے نام پر لوگ کھنچے آئیں۔ طالبعلموں میں ایسی بڑی شخصیت کوئی نہیں ہے۔ جب تک ایسی کوئی مرکزی شخصیت نئی جماعت میں موجود نہ ہو یہ لوگوں کو اپیل نہیں کر سکے گی۔ نظریے کا معاملہ یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں غالب مسلم اکثریتی ممالک ہیں، اس لیے یہاں مذہب ہی سب سے طاقتور نظریہ رہا ہے، اگرچہ مذہبی جماعتیں کبھی انتخابات میں بڑی تعداد میں کامیاب نہ ہوئی ہوں۔ اس نئی جماعت سی این پی نے خود کو مذہبی جماعتوں سے الگ رکھا ہے اور مذہب ان کے نعرے میں شامل نہیں ہے۔ میرے خیال میں سی این پی نے ”دوسری جمہوریہ“ کا جو نعرہ بلند کیا ہے اس میں عوام کیلئے کوئی خاص کشش موجود نہیں ہو گی۔ بنگلہ دیش میں انہیں جمہوریت کے نام پر ووٹ ملنا مشکل ہے۔ طالبعلم رہنماو¿ں کی نظر ان چار کروڑ ووٹرز پر ہوگی جو پچھلے سولہ سال میں بنے ہیں یعنی نوجوان ووٹ۔ یہ ووٹ ان کے حق میں جا سکتا ہے لیکن یہ ووٹ کسی ایک جگہ نہیں پورے ملک اور ہر حلقے میں منقسم ہے اس لیے عملا یہ کام نہیں آسکے گا۔
ان طالبعلموں نے یقینا حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے ایک بھرپور تحریک چلائی لیکن پہلے امتیازی سلوک کے خاتمے اور پھر حسینہ واجد کے استعفے کے دونوں مقاصد پورے ہو جانے کے بعد اب وہ جذبات سرد پڑ چکے ہیں۔ جب تک کوئی ایسا نیا بنیادی مقصد اور نعرہ سامنے نہیں آتا جو لوگوں کے دلوں کا ترجمان ہو سابقہ تحریک کی بنیاد پر لوگوں کو کھینچنا مشکل ہو گا۔ اگر یہ جماعت پچھلے سال حسینہ واجد کی اقتدار سے علیحدگی کے فورا بعد بن گئی ہوتی تو اسے وہ مومینٹم مل سکتا تھا اور تنظیم سازی کا بھی زیادہ وقت مل جاتا۔ اس کی عدم موجودگی میں بی این پی اور جماعت اسلامی وغیرہ نے اپنی سیاسی موجودگی کے باعث کئی سیاسی فوائد حاصل کیے ہیں۔
پاک و ہند میںکسی جماعت کا دانشوری اور علم کی بنیاد پر سیاسی مقبولیت حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ ان طالبعلموں کے پاس بنیاد یا تو یہ ہے یا پھر ملک کو ترقی کی نئی سمت میں چلانے کے دعوے۔ وہ دعوے جن کے پیچھے تاحال کوئی کارکردگی اور ریکارڈ نہیں ملک گیر پیمانے پر سیاسی انقلاب کیلئے ناکافی ہیں۔ میرے خیال میں اس جماعت نے بھارت کی عام آدمی پارٹی کے طریقہ کار کو اپنے سامنے رکھا اور تبدیلیوں کے جو نعرے لگا کر مقامی اور وقتی کامیابیاں اروندر کجریوال نے حاصل کی تھیں انہی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ عام آدمی پارٹی اپنی وقتی اور مقامی کامیابیوں کے باوجود زوال کا شکار ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دیہات میں اس کی نمائندگی اور تنظیم موجود نہیں۔ دہلی اور چند شہروں کے سوا اس کا وجود نہیں۔ چنانچہ سی این پی کیلئے بہت ضروری ہو گا کہ جلد از جلد تنظیمی ڈھانچہ بنائے اور یہ ڈھانچہ انتخابی مہم شروع ہونے سے مناسب مدت پہلے بن چکا ہو۔
پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں میں بی این پی اور جماعت اسلامی نے حسینہ واجد کے تمام ادوار میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اب ان کیلئے آسانی کا وقت آیا ہے تو وہ ایسی کسی نئی جماعت کو جگہ نہیں دینا چاہیں گی جو ان کے نظریات سے ہم آہنگ بھی نہ ہو اور قیادت بھی مانگتی ہو۔ عوامی لیگ اس وقت معتوب ہے اور اس پر انتخابی پابندی عائد ہے۔ اس کے رہنما گرفتار یا روپوش ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ کئی جگہوں پر اس کا حلقہ انتخاب موجود ہے۔ ایک اہم معاملہ فوج عدلیہ اور انتظامیہ کا ہوگا کہ وہ کس حد تک اس نئی جماعت کے ساتھ ہیں اورکس حد تک اسے ملک کی باگ ڈور کا اہل سمجھتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں مقتدر حلقے جو اہمیت رکھتے ہیں وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
مجھے اس حوالے سے کئی خدشات ہیں۔ سی این پی پہلے تو اندرونی اختلافات کا شکار ہو سکتی ہے۔ دوسرا اس کے پاس کوئی بڑا نعرہ موجود نہیں۔ تیسرا کوئی بڑا لیڈر موجود نہیں ہے۔ چوتھا پورے بنگلہ دیش میں ان کا تنظیمی ڈھانچہ اتنی جلدی بننا مشکل ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ شہروں مثلا ڈھاکہ میں انہیں اکا دکا سیٹیں مل جائیں۔ چنانچہ اگر سی این پی نے ملک گیر بنیادوں پر اپنی جماعت کو استوار نہ کیا اور اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکی تو وہ بری طرح بکھر جائے گی اور اس کا نام انہی جماعتوں میں شامل ہو جائے گا جو محض نام کا وجود رکھتی ہیں۔