مجھے صحافت میں تیس سال ہوگئے، اس دوران انٹرنیشنل افیئرز میں گہری دلچسپی رہی، اپنے اکیس سالہ کالم نگاری کے سفر میں یہ میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ صحافت میں آنے سے پہلے کالج، یونیورسٹی کے دور میں اخبارات کے مطالعہ سے گہری دلچسپی رہی۔یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ اور مؤرخین کو ایک طرف رکھ دیں، پھر بھی پچھلے چالیس بیالیس برس کا ہمارا براہ راست مشاہدہ ہے۔ صدر ریگن سے لے کر ابھی دو ماہ قبل رخصت ہونے والے صدر جو بائیڈن تک کے مختلف ادوار کو دیکھنے موقع ملا، مگر ایسا ہنگامی خیز اور سب کچھ تلپٹ کر دینے والا ٹرمپ جیسا امریکی صدر پہلی بار دیکھا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ کے دوسرے دور میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جس کی امریکا بلکہ انٹرنیشنل ڈپلومیسی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ صدر ٹرمپ جب 2016ء میں صدر بنے تو انہوں نے پہلے دن ریکارڈ ایگزیکٹ آرڈر جاری کئے تھے، اس بار صدر بننے کے بعد تو خیر حد ہی ہوگئی ہے۔ بے تحاشا ایگزیکٹو آرڈرز جاری ہوچکے ہیں۔ اہم ترین عہدوں پر ایسے ایسے تقرر ہیں کہ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس تو ایک طرف، خود ان کے اپنے ری پبلکن اراکین کانگریس بھی ہکے بکے رہ گئے۔ ناتجربہ کار، اوسط درجے کی اہلیت کے افراد کو نیشنل انٹیلی جنس، ایف بی آئی، سی آئی اے جیسے بڑے خفیہ اداروں اور اہم وزارتوں پر لگا دیا ہے۔ کوئی بول بھی نہیں سکتا، اس لئے کہ اس وقت ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف امریکا میں بلند ہے۔ وہ تازہ تازہ الیکشن جیت کر آئے ہیں اور ابھی پہلے سو دنوں کے ہنی مون پیریڈ کا فائدہ بھی لے رہے ہیں جس میں روایتی طور پر میڈیا نئے صدر پر تنقید میں ہاتھ ہلکا رکھتا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے دو تین جز واضح ہوچکے ہیں۔ وہ ”امریکا فرسٹ” کے نعرے کے علمبردار ہیں، یعنی سب سے پہلے امریکا۔ پاکستانی اس نعرے کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا گیا۔ اس وقت اس نعرے کا اصل مقصد یہ تھا کہ پاکستان اپنی بعض پالیسیوں پر یوٹرن لیتے ہوئے ان جہادی تنظیموں کو ڈس اون کر رہا ہے جس کی وہ پچھلے دس پندرہ برسوں سے سرپرستی کرتا رہا۔ اسی طرح پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت کا سب سے بڑا سرپرست تھا، مگر ”پاکستان فرسٹ” کے نعرے کی آڑ میں یہ پالیسی بھی یکسر تبدیل کر دی گئی ۔امریکی صدر ٹرمپ کے ”فرسٹ امریکا” سلوگن کا بھی یہی مطلب ہے کہ امریکا اب اپنا مفاد پہلے دیکھے گا اور اپنے دوستوں، اتحادیوں کے معاملے میں ایک خاص قسم کی خودغرضی اور مفاد پرستی کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ انٹرنیشنل ڈپلومیسی میں ہر ملک اپنا مفاد ہی دیکھ رہا ہوتا ہے، ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس کے مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ یہ ہر کوئی جانتا ہے، مگر ایسا کرتے ہوئے بہرحال کچھ نہ کچھ بھرم رکھا جاتا ہے، ایک پردہ اس سب پر ڈالا جاتا ہے ۔
اپنے مفادات پورا کرتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ سنہری اقوال، انسانی حقوق، جمہوریت، ظلم، زیادتی، عدل، انصاف جیسے الفاظ بول کر اپنا بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ جیسے انڈیا نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے بنگلادیش بنانا ہی تھا تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جا سکے، مگر اس کے لئے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یہ بہانہ بنایا کہ کئی ملین بنگالی مہاجرین انڈیا آ گئے ہیں اور حالات بہت خراب ہو چکے، اسے حملے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا، وغیرہ وغیرہ۔ اندرا گاندھی امریکا جا کر صدر نکسن سے بھی یہ کہہ آئی۔ ہمارے ہاں بعض لوگ اس بات پر یقین کر لیتے ہیں کہ اندرا گاندھی بنگالی مہاجرین کی وجہ سے حملے پر مجبور ہوئیں، حالانکہ اب تو بہت سے شواہد اس کے برعکس آ چکے ہیں۔ خود جنرل مانک شاہ نے اپنی آپ بیتی میں بھی لکھ ڈالا کہ اندرا گاندھی نے انہیں مشرقی پاکستان پر فوری حملے کا کہا، مگر میں نے چند ماہ کی مہلت مانگی تاکہ ہتھیاروں کی مرمت اور اچھی طرح عسکری تیاری ہوسکے۔ یعنی اندراگاندھی جب امریکا گئی تو اس سے دو تین ماہ پہلے وہ مانک شاہ کو حملے کا کہہ چکی تھی۔ خیر یہ تو الگ موضوع ہے، برسبیل تذکرہ ذکر آ گیا۔صدر ٹرمپ مگر ان تمام اخلاقیات، شائستگی اور رکھ رکھائو سے بالکل ہی بے نیاز ہوچکے ہیں۔ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ امریکا کا کوئی دوست امریکی خودغرضی سے ناراض ہو کر اسے طعنہ دے یا مایوس ہو جائے ۔ لگتا یوں ہے کہ صدر ٹرمپ کے نزدیک ان کے اتحادی کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ بڑا پالیسی شفٹ ہے اور اس پر دنیا بھر میں غور وخوض شروع ہوگیا ہے۔
امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ کو اپنا اتحادی بنا کر جہاں ایک طرف عسکری اتحاد نیٹو بنایا، دوسری طرف انگلینڈ کو اپنا خاص اور مقرب اتحادی بنایا(آج وہی برطانیہ امریکا سے خفا ہے۔)یورپ کو روس کے خلاف اتحاد میں استعمال کیا گیا، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی امریکی حکمرانوں نے یہ اتحاد، دوستی اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ وغیرہ جاری رکھی۔کبھی اسلاموفوبیا کو استعمال کیا گیا تو کبھی روس کے پھر سے ابھرنے کا خطرہ گنوایا گیا اور چین کے خلاف بھی یورپ کو ساتھ ملائے رکھا۔امریکا نے چین کے خلاف ایک اور اتحاد بھی بنایا جس میں جنوبی چینی سمندر کو سامنے رکھتے ہوئے آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن وغیرہ کو اپنے بہت قریب رکھا گیا۔ آسٹریلیا اور جاپان اور انڈیا تو امریکا کے ساتھ ایک باقاعدہ اتحاد کوواڈ (QUAD) میں شامل ہیں۔ دوسری طرف امریکا ہی نے پانچ ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ایک پلیٹ فارم ”فائیو آئیز” بنا رکھا ہے، جس میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔ اب فائیو آئیز والے ممالک بھی ٹرمپ سے شاکی ہیں۔
صدر ٹرمپ کی حکومت لگتا ہے اُن تمام اتحادوں سے بے نیاز اور بے پروا ہے۔ وہ صرف اپنے مفادات، اپنے لئے زیادہ سے زیادہ پیسے اینٹھنے اور کسی بھی دوست ملک یا اتحادی کو درخور اعتنا نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یوکرائن کو روس کے خلاف نبرد آزما کرنے میں امریکا یورپ کے ساتھ شامل تھا بلکہ پیش پیش تھا۔ سب سے زیادہ امداد بھی امریکا نے فراہم کی۔ دو ڈھائی سال قبل جب یوکرائن کا صدر زیلنسکی روس کے ساتھ مفاہمت کے لئے تیار تھا، تب امریکا نے برطانیہ کے ذریعے دبائو ڈالوایا اور یوکرائن کو ایسا نہ کرنے دیا۔ اب اسی امریکا کا صدر اسی یوکرائنی صدر کو بے وقوف، ضدی، تیسری عالمی جنگ کرانے کا خواہشمند اور ڈکٹیٹر کہہ رہا ہے۔ اس کی وائٹ ہائوس میں صحافیوں کے سامنے کھلی بے عزتی کی گئی، کھانا کھلائے بغیر وائٹ ہائوس سے باقاعدہ نکال دیا گیا ۔ یہ سب کچھ وہ ہے جو عالمی سفارت کاری میں بہت کم نظر آیا۔ امریکی صدور اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ کبھی ایسا نہیں کرتے رہے۔ یہ مگر ٹرمپ کا امریکا ہے ۔ ہر اصول، ضابطے سے بے نیاز۔
گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے کانگریس سے اپنا خطاب کیا، اس میں ایک بار پھر گرین لینڈ پر قبضے کا اشارہ دیا، پانامہ کینال واپس لینے کا کہا گیا۔ ڈیموکریٹس پر تنقید کی کہ وہ میرے لئے کھڑے بھی نہیں ہوئے۔ ایک ڈیموکریٹ رکن کو تنقید پر ہال سے نکال دیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے امریکیوں کو یہ نوید بھی سنائی کہ وہ پچاس لاکھ ڈالر دینے والے غیر ملکیوں کو گولڈ کارڈ دیں گے جو گرین کارڈ سے بہتر ہوگا اور اس رقم سے قرضہ اتاریں گے۔ معدنیات کی پیداوار بڑھانے (درحقیقت مختلف ممالک کی معدنیات پر قبضے کے پلان) کا ذکر کیا ۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر یہ کہا کہ جو چیزیں امریکا میں نہیں بنیں گے، ان پر ٹیکس لگائیں گے۔ امریکا کو عظیم ترین بنانے کے بلند وبانگ دعوے کئے گئے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ، مگر درحقیقت امریکا ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح بھنایا ہوا پھر رہا ہے، ہرملک خوفزدہ ہے کہ کہیں یہ اس کی شیشے کی دکان تباہ نہ کر دے۔ یہ مگر ڈرنے نہیں، ہوشمندی اور سلیقے سے ردعمل دینے کا وقت ہے۔ چین کی پالیسیوں اور اقدامات پر نظر رکھیں، وہ کیسی میچورٹی اور دانش مندی سے ردعمل دے رہا ہے، اپنے پتے کھیل رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ چین اور یورپ مستقبل میں کچھ قریب آ جائیں۔ امریکا سنور جائے گا یا وہاں بہت کچھ بگڑ جائے گا، یہ تووقت بتائے گا۔ یہ مگر طے ہے کہ ٹرمپ کا عہد ختم ہوا تو امریکا وہ نہیں رہے گا جو پہلے تھا۔ بہت کچھ نیا، مختلف، منفرد اور عجیب ہونے جا رہا ہے۔ آنکھیں کھلی رکھیے۔