آج کل اکثر حضرات کو دیکھا گیا ہے وہ طرح طرح کی پریشانیوں اور مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ اپنے والدین، عزیز واقارب اور اساتذہ کو ان پریشانیوں اور مشکلات کے ازالے کی دُعا کے لیے کہتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ سے بذاتِ خود دُعا نہیں مانگتے، حالانکہ جس درددِل، توجہ، عاجزی اور انکساری کے ساتھ بندہ خود دُعا مانگ سکتا ہے اُس دردِ دل سے کوئی دوسرا نہیں مانگ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: ”مجھے پکارو میں تمہاری دُعائیں ضرور قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضرور ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔” (غافر: 60)
اس آیت میں دو باتیں خاص طورپر قابلِ غور ہیں: ایک یہ کہ دُعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ کے طورپر استعمال کیا گیا ہے کیونکہ پہلے فقرے میں جس چیز کو دُعا سے تعبیر کیا گیا ہے اُس کو دوسرے فقرے میں عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دُعا عین عبادت اور جان عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دُعا نہ مانگنے والوں کے لیے ”گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں” کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا اللہ سے دُعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان تکبر میں مبتلا ہے، اس لیے اپنے مالک وخالق کے سامنے اعتراف عبودیت سے کتراتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرمادیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دُعا عین عبادت ہے۔” (ابودائود) پھر آپ نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔ حضرت انس کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دُعا عبادت کا مغز ہے۔” (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔” (ابن ماجہ) اس مقام پر پہنچ کر وہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر اُلجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دُعا کے معاملے میں اس طرح سوچتے ہیں جب برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت ومصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کرچکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہوکر رہنا ہے تو پھر ہمارے دُعا مانگنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دُعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دُعا مانگے بھی تو اس کی دُعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔
مذکورہ بالا آیت میں اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کیا گیا ہے۔ اولاً :اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرمارہے ہیں: ”مجھے پکارو! میں تمہاری دُعائیں قبول کروں گا۔” اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے معاذ اللہ دُعا قبول کرنے کے اختیارات سلب ہوگئے ہوں۔ بندے بلاشبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ نے بعض تقدیریں بندوں کی دُعائوں پر موقوف رکھی ہوتی ہیں۔ جب بندہ دُعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وہ ضرورت پوری کردیتا ہے۔ مثلاً: تقدیر میں یہ لکھا ہو کہ فلاں بندہ جب دُعا کرے گا تو اسے فلاں مرض سے شفا حاصل ہوگی یا رزق حاصل ہوگا۔ اب ظاہر ہے ان چیزوں کا حصول دُعا کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔ اس کو علماء کی اصطلاح میں تقدیر معلق کہتے ہیں۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خواہ دُعا قبول ہو یا نہ ہو بہرحال فائدے سے وہ کسی صورت بھی خالی نہیں ہوتی۔ وہ یہ کہ انسان اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرکے اور اس سے دُعا مانگ کر اس کی ربوبیت وبالادستی کا اعتراف اور اپنی بندگی وعاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہارِ عبودیت خود عبادت بلکہ ہر عبادت کی روح ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا، قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دُعا کی تھی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل ارشادات میں ان دونوں باتوں کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے۔حضرت سلمان کی روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر ”دُعا” (ترمذی) یعنی اللہ کے محکم فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، لیکن مشروط فیصلے کو شرط پوری کرکے یعنی دُعا کرکے اپنے حق میں بدلوایا جاسکتا ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جب کبھی اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتا ہے اللہ اسے یا تو وہی چیز دے دیتے ہیں جس کی اس نے دُعا کی تھی یا اس درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتے ہیںبشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دُعا نہ کرے۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ سب کی دعائیں قبول کرتا ہے اور سب کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ حدیث میں ہے اللہ بندے کی دعا قبول کرتا ہے یہاں تک کہ جلدی نہ کرے اور قطع رحم یا گناہ کی دعا نہ مانگے، یعنی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ روایت ہے تمہارا ربّ بڑا حیا والا اور کریم ہے، اس کو شرم آتی ہے کہ بندہ اس کی طرف ہاتھ اُٹھائے اور وہ اس کو خالی ہاتھ پھیر دے۔ حاصل یہ کہ ُدعاء دل سے مانگے اور قبول ہونے کا یقین بھی کرلے اور بے دلی کی دعا اللہ قبول نہیں کرتا۔ دُعا کا اثر ظاہر نہ ہونے میں کچھ امتحان ہوتا ہے۔ بہت حکمتیں ہیں دیر ہو جانے میں، لیکن بندہ مانگنا نہ چھوڑے اور نہ ربّ کریم سے مایوس ہو۔