رمضان کا مبارک مہینہ اپنی برکتوں،رحمتوں،بخششوں اور انوارات کے ساتھ ایک بار پھر ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے اور ہمارے لیے مجاہدہ نفس،تطہیر ذات اور تقوی کے مراتب کے حصول کے ذریعے ایک بار پھر قوموں کی برادری میں عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے قائدانہ کردار کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام لے کر حاضر ہے۔
امسال یہ مبارک مہینہ ایک ایسے وقت میں شروع ہورہا ہے جب ہمارے اجتماعی وجود پر اندر اورباہر سے حملے جاری ہیں۔چنانچہ ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری اسلامی دنیا کی طرح پاکستان کے مسلمان رمضان کے مقدس مہینے کے استقبال کی تیاریوں میں تھے،سفاک دہشت گردوں نے عالم اسلام کے ایک عظیم دینی مرکز جامعہ حقانیہ کی جامع مسجد میں تخریب کاری کی انتہائی بزدلانہ اور بہیمانہ واردات کرکے جامعہ کے نائب رئیس اور جمعیت علماء اسلام( س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت 8بے گناہ نمازیوں کو شہید کردیا ہے جس پر پوری اسلامی دنیا میں شدید دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔اس واردات کے ذریعے دین دشمن اور پاکستان دشمن قوتوں کے مفادات کی تکمیل کی گئی ہے اور اس کے پیچھے جو بھی مجرم ذہنیت کارفرما ہے،اس کو بے نقاب کرنا اور عامة المسلمین کو اس قابل نفرین ذہنیت کے شر سے بچانا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
مولانا حامد الحق شہید اور ان کے خاندان کی دین و ملت اور وطن عزیز پاکستان کے لیے خدمات محتاج بیان نہیں ہیں۔انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے دفاع، استحکام اور استقلال کی جنگ لڑی ہے اور اسلام دشمن و پاکستان دشمن قوتوں کو للکارا ہے۔شاید اسی وجہ سے دشمن قوتوں نے اپنے آلہ کار عناصر کے ذریعے ان کو نشانہ بنایا ہے۔اسی جرم میں مولانا حامد الحق شہید سے پہلے ان کے عظیم والد مولانا سمیع الحق صاحب کو بھی شہید کیا گیا۔مگر مقام افسوس یہ ہے کہ ہماری ریاست کئی برس گزرجانے کے بعد بھی قوم کو یہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر مولانا سمیع الحق کاخون کیوں بہایا گیا تھا۔اس پس منظر میں یہ توقع رکھنا تو مشکل ہے کہ حکومت پاکستان مولانا حامد الحق کی شہادت کے واقعے کی بھی جامع تحقیقات کرائے گی اور اس کے حقیقی ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی تاہم اگر ریاست پاکستان کو ملک کا امن و استحکام عزیز ہے اور ہم بحیثیت قوم آیندہ اس طرح کے سانحات کا شکار نہیں ہونا چاہتے تو نہ صرف مولانا حامد الحق شہید بلکہ ان کے والد گرامی مولانا سمیع الحق شہید کے قاتلوں کو بھی سامنے لانا ہوگا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر علماء کا خون سستا سمجھنے والوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ان واقعات کی مکمل تحقیقات کرانی ہوں گی۔علاوہ ازیں عوام اور دینی حلقوں کو بھی ملک وملت کے خلاف کی جانے والی ان سازشوں سے ہوشیار رہنے، تخریب کار عناصر پر کڑی نظر رکھنے اور اپنی صفوں میں اتحاد،نظم و ضبط اور اجتماعیت برقرار رکھنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر رمضان میں تراویح اور نماز جمعہ کے اجتماعات میں سیکیورٹی اور نگرانی کے نظام کو بہتر بنانے میں انتظامیہ کے تعاون سے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔
ماہ مبارک کے آغازپر عالم اسلام کے حالات بھی بدستور پیچیدہ ہیں۔اس وقت مسلم امہ متعدد اجتماعی مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہے ، غزہ کی صورتِ حال پر ہر درد مند مسلمان کا دل خون کے آنسو رورہاہے ، غزہ میں مسلم امہ کے لاکھوں بچے سردی کے موسم میں بے یار و مددگارکھلے آسمان تلے افطار اور سحری کرنے پر مجبور ہیں۔بھوک، موسم کی سختی ، نقل مکانی ، دربدی اور اپنے پیاروں سے محرومی نے انھیں جسمانی ، ذہنی ،نفسیاتی اور جذباتی طورپر مجروح کردیاہے ۔ دوبارہ جنگ چھڑ جانے کا خدشہ بھی ہر وقت ان کے سروں پر منڈلارہا ہے۔ماہِ رمضان المبارک میں مسجدِ اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز و عبادات کی اجازت نہ دیے جانے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں، گویا ظالم صہیونی دہشت گرد ہر طرح سے مسلمانوں کو تکلیف میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر اسلامی ممالک مفادات سے بالا تر ہوکر دینِ اسلام کی جانب سے دیے گئے تناظر اور وحی کی روشنی میں وضع کردہ حکمت اور ایمانی شعور سے کام لیں او ر عرب وعجم تقسیم کو چھوڑ کر ایک وحدت کی صورت میں صہیونی دہشت گردوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیں تو مسلمانوں کی تکلیف میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ قریباً پورا ہی مغرب صہیونی دہشت گرد وں اور قابض افواج کی پشت پر ہے اورامریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے دجالی ریاست کو مسلسل فوجی کمک، اسلحہ ، ماہرینِ جنگ اور رضا کار مہیا کیے جارہے ہیں جبکہ اس سب کے مقابلے میں اہلِ غزہ تقریبا ًنہتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسے مواقع کم ہی آئے ہوں گے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد محصور ہو، قرب و جوار کی اسلامی سلطنتوں میں دولت ، وسائل اور اسلحے کی فراوانی اور مسلم ممالک کے پاس دنیا کی بہترین افواج موجود ہوں لیکن ان کے بچوں کا قتلِ عام، خواتین کی توہین او ر بزرگوں کو بے توقیر کیا جارہاہواور مسلم ممالک جواب میں آواز نکالنے سے بھی قاصر ہوں۔دراصل ہم قرآن کریم کے اس بنیادی حکم سے روگردانی کے مرتکب ہورہے ہیں جو کہ سیاسی اور اجتماعی کامیابی کے لیے اصول کے طورپر ہمیں تعلیم کیا گیا، اتحاد و اتفاق ، باہمی نزاع سے گریز ، اختلاف ِ رائے کے باوجود امت کے اجتماعی مفادات کے لیے ایثار قربانی اور خواہشات کی بجائے مقاصد کو ترجیح دینا ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہمیں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے لیکن وطنیت، لسانیت ، مذہبی اختلافات و تنازعات اور ملکی اور طبقاتی مفادات پر مشتمل سیاست نے من حیث المجموع مسلم امہ کو نکبت و ہزیمت میں مبتلا کردیاہے ۔
ماہ ِ مبارک کا آغاز ہمیں پیغام دیتا ہے کہ ہم ایک بار پھر اسلامی اخوت کے جذبے سے معمور ہوکر فضائے بدر پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی مددو نصرت ہمارے شامل حال ہوجائے اور ہم باطل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہو جائیں۔ رمضان میں ہمارے ہاں انفرادی طور پر عبادات کا اہتمام، ذکر و تلاوت کی کثرت ، نوافل کا شوق، صدقہ و خیرات کا عمومی رجحان، نیکیوں کی جانب رغبت اور برائیوں سے گریز کی کیفیت دکھائی دیتی ہے جو خوش آیند امر ہے تاہم عمومی رویے میں اس بہتری کے ساتھ ہی مسلمانوں کے مجموعی احوال میں بھی مثبت تبدیلی کا عنصر ظاہر ہونا چاہیے جیسا کہ ماضی میں مسلمانوں کو بہت سی تاریخی کامیابیاں اسی ماہ میں نصیب ہوئیں۔ ہمیں اپنی اجتماعی زندگیوں اور ریاستی پالیسیوں میں بھی اسلام کی سربلندی و سرفرازی کو اولین ہدف بنانا چاہیے۔