زندگی کا نیا موڑ

فروری کا مہینہ میرے لئے بہت اہم ہے۔ بہت پہلے، کوئی بتیس سال قبل اسی مہینے میں کراچی کے ایک مشہور روٹ پر بس کا یادگار سفر کیا۔ قانون کی تعلیم کے لئے یہاں مقیم تھا۔ رات کو جاگ کر ایک کالم لکھا تھا اور اب اسے ملک کے سب سے بڑے اخبار کے دفتر میں دینے جا رہا تھا۔ امید وبیم کی کیفیت تھی۔ سوچ رہا تھا کہ نجانے مجھ جیسے طالب علم کے ساتھ کیا سلوک روا رکھیں گے۔

بس اسٹاپ پر اترا، کچھ پیدل چل کر آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع اس اخبار کے دفتر گیا۔ جو صاحب استقبالیہ پر براجمان تھے، ان سے پوچھا کہ ادارتی شعبے کے کسی فرد سے بات ہوسکتی ہے۔ اس نے تیز نظروں سے دیکھا اور پوچھا کہ کوئی مضمون ہے تو جمع کرا دیں۔ میں نے خاموشی سے جیب سے خاکی لفافہ نکالا اور اسے دے دیا۔ اس نے کہا اب آپ جائیں۔ واپس پلٹنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ قدرے مایوسی سے واپس لوٹا۔
میں اپنے ماموں کے گھر ٹھیرا ہوا تھا۔ ان کے گھر صبح وہی اخبار آتا تھا۔ اس روز صبح جلدی آنکھ کھل گئی، باہر آ کر اخبار کا انتظار کرتا رہا۔ ہاکر اخبار دے گیا، لپک کر فوری ادارتی صفحہ کھولا۔ نظر پڑی تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ میرا کالم اپر ہاف کی لیفٹ سائیڈ پر چھپا ہوا تھا۔ مرکزی کالم جناب ارشاد احمد حقانی کا تھا، وہ ان دنوں ریگولر کالم لکھا کرتے تھے، ان کے ساتھ بغل میں میرا کالم چھپا تھا، نام تھا، ٹرائیکا کی آئینی اور سیاسی حیثیت۔ ان دنوں ٹرائیکا کی اصطلاح عام تھی یعنی صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف۔ میں نے ٹرائیکا کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے اور قانونی حوالے دے کر وہ کالم لکھا۔
اس کالم کے چھپنے کی مسرت بے پناہ تھی، آج تک نہیں بھول سکتا۔ اس کے بعد میرے بلامبالغہ کئی ہزار کالم، مضامین، بلاگز، انٹرویوز چھپ چکے ہیں، مگر وہ پہلی بار کا انبساط، خوشی، مزا کچھ اور تھا۔
چھ فروری 1996صحافت میں پہلا دن۔ میرا پہلا کالم چھپے تین چار سال گزر چکے تھے۔ ایل ایل بی کر کے اپنے آبائی شہر احمد پورشرقیہ واپس آ گیا تھا۔ یہاں سے دو چار مزید کالم اور مضامین کراچی اور پنجاب کے اخبارات میں بذریعہ پوسٹ بھیج کر چھپوائے تھے، مگر یہ احساس دامن گیر تھا کہ خط جاتے تین دن لگ جاتے ہیں اور اسے پڑھنے میں مزید ایک دو دن تو تب تک کرنٹ افیئرز کے معاملات میں تبدیلی آ جاتی ہے اور کئی بار کالم بے کار ہوجاتا ہے۔ یہ سوچ ذہن میں تھی کہ کالم نگار بننا ہے تو باقاعدہ صحافت کرنا ہوگی۔ ویسے میں وکالت کر رہا تھا، ایک سینئر قانون دان کے ساتھ اپرنٹس شپ کا وقت گزار رہا تھا، لائسنس بننے گیا ہوا تھا۔
ایک ایسا عجیب اتفاق ہوا کہ میرا زندگی میں پہلی بار لاہور کا چکر لگا، وہاں جس دوست کے پاس ٹھیرا تھا، اس کے ساتھ اس کے کلاس فیلوز سے ملاقاتیں رہیں۔ ایک ملاقات اردو ڈائجسٹ میں الطاف حسن قریشی صاحب سے بھی ہوئی۔ ان سے کچھ گپ شپ کی اور اپنی دانست میں ڈائجسٹوں کو کیا کرنا چاہیے، اس پر بھی روشنی ڈالی۔ نوجوانی میں آدمی ایسا ہی کرتا ہے، بلا سوچے سمجھے بول جانا اور کبھی وہی کام آجاتا ہے۔ خیر مجھے اردو ڈائجسٹ میں سب ایڈیٹر کی سیٹ خالی ہونے پرگھر بیٹھے آفر ہوئی۔ انٹرویو کے لئے لاہور گیا۔ انہوں نے فوری جوائن کرنے کا کہا گیا۔ چھ فروری چھیانوے میرا صحافت میں پہلا دن تھا۔ اب انتیس سال ہوگئے ہیں۔
فروری 2004، صحافت میں آئے کئی سال ہو چکے تھے۔ اردو ڈائجسٹ سے روزنامہ جنگ کے نیوز روم میں گیا، وہاں تین سال گزارے اور پھر لاہور سے شائع ہونے والے نئے اخبار روزنامہ ایکسپریس کو جوائن کر لیا تھا۔ ایکسپریس کراچی سے چند سال پہلے سے چھپ رہا تھا، مگر پنجاب اور پختون خوا میںکئی شہروں سے اس کی اشاعت اگست دو ہزار دو میں ہوئی۔ میں اس کے شعبہ میگزین کا انچارج تھا۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ صحافت میں کالم نگار بننے آیا تھا کہ اندازہ ہوگیا تھا باہر بیٹھ کر کالم چھپوانا مشکل کام ہے۔ تب اخبارات کے ادارتی شعبے آوٹ کنٹری بیوٹرز کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ یہ اور بات کہ جب اخبار میں آ گیا تب اندازہ ہوا کہ اندر رہ کر کالم چھپوانا زیادہ مشکل کام ہے کہ بہت سی جیلیسی، مخالفت اور بیرئرز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایکسپریس کے رنگین ایڈیشن میں بہت لکھا، خلیج کی دوسری جنگ کے دنوں میں روزانہ ایڈیشن بنائے اور میگزین کے مخصوص ڈرامائی انداز میں لکھا کرتا جس میں روانی اور کہانی کی سی دل چسپی ہوئی۔ اخبار کی مینجمنٹ کو میری تحریریں پسند تھیں۔ تب ان کے پاس کالم نگار بھی نہیں تھے، ایک دو چوٹی کے کالم نگار آئے مگر پھر جلد زیادہ معاوضے پر واپس چلے گئے۔ اخبار کی انتظامیہ نے سوچا کہ ہمیں اپنے لوگوں میں سے کالم نگار بنانے چاہئیں۔ نگاہ انتخاب خاکسار پر پڑی۔
فروری ہی کا ایک دن تھا جب مجھے ایڈیٹر صاحب نے بلا کر کہا کہ اپنا کالم شروع کرو۔ میں نے اگلے روز ہی کالم لکھ ڈالا۔ دو تین کالم چھپے تو سوچا کہ مستقل لوگو بننا چاہیے، کالم کا مستقل عنوان ہو۔ میگزین کے ساتھی اور دیرینہ دوست غلام محی الدین نے زنگار رکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے غالب کا ایک شعر سنایا جو زنگار کی بہترین تشریح ہے۔ مجھے نام اچھا لگا کہ مترنم اور نیا ہے، شعر بھی خوب تھا اور غالب سے بڑھ کر کیا سند ہوسکتی ہے۔ سو نام رکھ لیا، دو تین سال پہلے شادی ہوئی تھی، ولیمے کی تصویر جو سوٹ میں ملبوس سٹائلش سی تھی، اسے اٹھا کر لوگو بنا لیا اور یوں محمد عامرہاشم خاکوانی کے نام سے کالم چھپنے لگے۔ پھر ایک سینئر اور ہمارے ایک بزرگ کے مشورے سے نام دو حرفی کر دیا، عامر خاکوانی۔ ہفتے میں پہلے دو اور پھر تین کالم لکھتا رہا۔
ایک کے بعد دوسرا اخبار اور پھر تیسرا اخبار۔ میگزین ایڈیٹر کی ذمہ داریوں کے ساتھ کالم بھی لکھتا رہا۔ پھر ایک اخبار نے نیوز پیج پر کالم لگانا شروع کر دیا، اس کا یہ فائدہ ہوا کہ تین چار بجے دن تک کالم لکھنے کے بجائے رات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے تک کالم لکھنے کی مہلت مل جاتی تو تازہ ترین صورتحال پر لکھنا ممکن ہوگیا۔
کالم شروع کیا تو دو تین عہد کئے تھے۔ ایک صوفی کی بات ذہن میں رہی کہ اہل قلم کو دربار کی طرف سے منہ پھیر کر کھڑا ہونا چاہیے، اپنا رخ عوام کی طرف کریں اور ان کی آواز بنیں، پھر استقامت سے سربلند کھڑے رہیں۔ اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق یہی کیا۔ اسلامی قدروں پر بہت لکھا۔ مثبت خبروں، معاشرے کی اچھائیوں پر لکھا، اہل خیر کی بہت سپورٹ کی، جسے آج کل موٹیویشنل کالم کہا جاتا ہے، وہ بھی بہت لکھے۔ مقصد یہ تھا کہ منفییت پھیلانے کے بجائے امید پھیلائی جائے، خیر کو فروغ ہو۔ الحاد، سوشل ازم، سیکولر ازم، لبرل ازم کے خلاف سینکڑوں کالم لکھے۔ سوشل میڈیا پر خود کو اعلانیہ رائٹسٹ، اسلامسٹ کہلایا تاکہ مذہب پسند حلقے کو تقویت پہنچے۔ علم وادب کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی، کتابوں پر بہت زیادہ کالم لکھے۔
اب ایک نیا موڑ آیا ہے۔ اکیس سال تک مین سٹریم اخبارات میں کالم لکھنے کے بعد ایک خالص نظریاتی اور دینی شعار، اخلاقیات کے علم بردار منفرد اخبار روزنامہ اسلام میں باقاعدہ کالم شروع ہوا ہے۔ یہ بھی فروری کا مہینہ ہے۔ میری زندگی میں نئی برکات، رب کی رحمتیں گھولنے والا مہینہ۔
کہتے ہیں کہ فتوحات کے بعد جب سیدنا عمر عالم اسلام کے بڑے سپہ سالار سے ملے تو وہ قیمتی لبادے میں ملبوس تھے، جناب عمر بن خطاب بڑے رعب داب والے شخص تھے، صاف منہ پر بات کہہ دینے والے۔ انہوں نے قدرے ناپسندیدگی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ تم ہماری زندگیوں ہی میں بدل گئے۔ وقت کے نامی گرامی جنگجو اور سالار نے لبادے سے تلوار نکالی، لہرائی اور کہا امیر المومنین شمشیر وہی ہے۔
ہم خاکسار، ان بزرگوں کے غلاموں کے غلام، ان کے پائوں کی خاک سے بھی کم تر، رب نے مگر ہمیں بھی ایسی ہمت اور توفیق دی ہے کہ وہی شمشیر پہلے دن سے آج تک سونت رکھی ہے۔
وقت کے ساتھ مورچے اور محاذ بدل جاتے ہیں، مشن اور جدوجہد نہیں رکنی چاہیے۔ ہمارا بھی آج صرف مورچہ بدلا ہے۔
روزنامہ اسلام کے قارئین کو سلامِ محبت قبول ہو۔ ان شاء اللہ ساتھ رہے گا۔ اپنے خیالات، اپنی سوچ آپ سے شیئر کرتے رہیں گے۔ سلامت رہیں، خوش رہیں۔