پاک ترک اشتراک، اہم پیش رفت

ترک صدر رجب طیب اردوان کے دورۂ پاکستان کے موقع پر اہم معاہدوں اور یادداشتوں کی منظوری دی گئی جودونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے باب میں اہم پیش رفت ہے۔ پاک ترکیہ اعلیٰ سطحی تزویراتی تعاون کونسل کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق تزویراتی تعاون کو مزید وسعت دی جائے گی اور تمام شعبوں میں شراکت کو آگے بڑھایا جائے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ترک صدر کے دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان سب سے اہم نکتہ دفاعی تعاون میں مزید شراکت داری رہاہے۔ اس سلسلے میں ترک صدر رجب طب اردوان اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ایک گھنٹہ خصوصی بات چیت بھی ہوئی جس میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور چند دیگر اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔ بتایا جارہا ہے کہ ترک صدر کی جانب سے پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی کی فراہمی میں مزید پیش رفت کی منظوری دے دی گئی ہے۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات روزِ اول سے قائم ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان بھی اخوت کا گہرا رشتہ پایا جاتاہے اور ملی جذبے نے دونوں ملکوں کے عوام کو اہم قومی معاملات پر مشترک سوچ فراہم کی ہے۔ ملی رشتے اور باہمی اخوت کا تقاضاہے کہ دونوں ممالک باہمی استحکام اور ترقی کے ہر شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ مزید تعاون سے کام لیں تاکہ دونوں ممالک دفاعی، اقتصادی، مذہبی، تعلیمی اور سماجی شعبوں میں اپنے اداروں اور عوام کیلئے کشادہ راہیں تیارکرسکیں۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان نئے معاہدوں کی منظوری نہایت خوش آئند امر ہے۔ پاکستان کو اس وقت بیرونی اور اندرونی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ایک جانب اس کے مشرق میں جنگ کی تیاریاں واضح طورپر دیکھی جاسکتی ہیں تو دوسری جانب شمال مغرب میں ایک پڑوسی ملک تخریب کاری کے ذریعے خطرات پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سیکورٹی فورسز روزانہ کی بنیاد پر آپریشن کررہی ہیں لیکن پڑوسی ملک کے تعاون اور امداد کی وجہ سے فتنہ ٔ خوارج اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں ملک میں انارکی، انتشار اور خوف و ہراس کی کیفیات پھیلانے کے لیے مسلسل سرگرم ہیں۔
ان حالات میں ملکی دفاع کے لیے ترکیہ سے ملنے والی ڈرون ٹیکنالوجی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ ہر ملک اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے جدید وسائل چاہتا ہے۔ دو دوست ممالک جب دفاعی ٹیکنالوجی اور حربی مہارتوں کے سلسلے میں باہمی تعاون سے کام لیتے ہیں تو اس سے دونوں ملکوں کی دفاعی قوتوں کو فائدہ ہوتاہے، اجتماعی قوت میں اضافہ ہوتاہے اور ملک اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے میںمدد ملتی ہے۔ یہ تعاون صرف جنگ ہی نہیں بلکہ امن کے دور میں بھی ایک دوسر ے کے کام آتاہے۔ پاکستان اگر ڈرون ٹیکنالوجی میں آگے بڑھتاہے تو اس کے فوائد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور فتنہ ٔ خوارج کی سرگرمیوں کو کچلنے کی صورت میں بھی ظاہر ہوں گے اور سرحدوں کی حفاظت، دہشت گردی کے کیمپوں کو نشانہ بنانے اور مشرق میں موجود آتش و آہن کے سیلاب کا زور توڑنے میں بھی مددمل سکے گی۔ پاکستان کے پاس جدید ترین میزائل موجود ہیں لیکن اسے میزائل ٹیکنالوجی جو جدید اور چھوٹے ہتھیاروں میں تبدیل کرنے کی ضرورت بھی ہے تاکہ چھاپہ مار کارروائی کرنے والے دشمن کو کم وسائل اور کم نقصان کے ساتھ نشانہ بنانے میں سہولت مل سکے۔ دودوست ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری بھی اسی وجہ سے اہمیت کی حامل ہے کہ باہمی اقتصادی تعاون تجارت، صنعت اور روزگارکی ترقی اور خوش حالی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ اس وقت ترکیہ اقتصادی لحاظ سے آگے بڑھ رہاہے اور اس کی کمپنیوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں اہم منصوبے شروع کررکھے ہیں۔ پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری اور حرفتی منصوبے جہاں ترک سرمایہ کاروں کے لیے فوائد کا باعث ہوں گے وہاں پاکستان کے ہنرمند افراد کو بھی روزگار کے ساتھ ساتھ تجربہ اور مہارت حاصل کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔ دفاع اور اقتصادی شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان شراکت باہمی تعلقات کے مزید فروغ کا ذریعہ بھی بنے گی۔
ترکیہ اور پاکستان کے درمیان تعلیم اور مذہبی معاونت کے درمیان مزید فروغ کیلئے مشترکہ منصوبوں پر عمل کا فیصلہ بھی دونوں ملکوں کے عوام کیلئے نہایت اہم ہے۔ ترکیہ میں اصلاحِ احوال کیلئے تعلیمی منصوبوں اور مذہبی اداروں کی ترقی کی جو ضرورت محسوس کی جارہی ہے وہی ضرورت پاکستان کو بھی درپیش ہے۔ پاکستان کا ناقص ترین تعلیمی نظام قومی ضرورتوںکی تکمیل سے عاری ہے۔ اس فرسودہ نظام میں اصلاح کی کوششوں کا بھی خاطر خواہ فائد ہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ نظام ایسے افراد تیار نہیں کررہا جو ایک مسلم ریاست کے تقاضوں کیلئے کردار ادا کرسکیں۔ ان حالات میں ترکیہ کی معارف فاؤنڈیشن کی پاکستان آمد اور یہاں تعلیمی ترقی کیلئے اس کی کارفرمائی ممکن ہے اہلِ وطن کے دلوں پر دستک دینے میںکامیاب ہوجائے۔ ہمیں نیت کی اصلاح سے لے کر رویوں کی بہتری، جذبات واحساسات کی تہذیب اور علوم و فنون میں رسوخ کی تربیت غرض ہر تعلیمی و تربیتی مہارت کی اشد ضرورت ہے۔ قوم کا مزاج بگڑ چکا ہے۔ نئی نسل محنت، تحقیق، جد وجہد اور بلند مقاصد کی خاطر کام کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ لاکھوں افراد میں سے چند ہی کسی کارِ عظیم کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایسے میں ترکیہ کے بلند کردار، تربیت یافتہ اور علوم و فنون میںرسوخ رکھنے والے ماہرین کی پاکستان آمد، یہاں کے علمائ، اطبا، دانش وروں اور اساتذہ کرام کی ترکیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش، ان شاء اللہ ملی تقاضوں کی ترویج کے لیے کار گر ثابت ہوگی۔
پاکستان اور ترکیہ کے مابین سماجی سطح پر ہم آہنگی کو بڑھانے اور عوامی روابط کو مزید مستحکم کرنے کیلئے اسکولوں، کالجوں اورجامعات کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے قیام اور مساجد کی سطح پر تربیت اورپیشہ ورانہ تعاون کے سلسلے کو بھی بڑھانا چاہیے۔ تعلیمی تعاون کے فروغ کے لیے جدید مواصلاتی ذرائع کا استعمال بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح کھیلوں کے مشترکہ پروگرام بھی باہمی تعلق میںاضافے کا باعث ہوں گے۔ ایک ابھرتی ہوئی قوم کے ساتھ کام کرنے کے تجربات اہلِ وطن کے لیے ہمت اور حوصلے کا سبق بنیں گے۔ دعا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ مل جل کر قدم آگے بڑھانے میں کامیاب رہیں اور دونوں کے مشترکہ منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوں۔