مہنگائی، رزقِ حلال اور اسلامی تعلیمات

تحریر: سجاد سعدی۔ کراچی
مہنگائی آج ہر شہری کے اعصاب پر سوار ہے۔ بازار جائیں تو اشیا ئے خور و نوش کے نرخ سن کر دل دہل جاتا ہے، بجلی اور گیس کے بل دیکھیں تو ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے اور جب اپنی آمدنی پر نظر پڑتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی محض ایک جدوجہد کا نام رِہ گئی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا مہنگائی محض حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا اس میں ہم سب کا بھی کوئی کردار ہے؟ اگر ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیں تو حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ مہنگائی صرف ایک اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور دینی مسئلہ بھی ہے۔
اسلام میں رزقِ حلال کو نہ صرف عبادت قرار دیا گیا ہے بلکہ اسے برکت اور خوشحالی کا ذریعہ بھی کہا گیا ہے۔ قرآن میں ارشادباری تعالیٰ ہے:اور حلال اور پاکیزہ چیزوں میں سے کھا ؤجو اللہ نے تمہیں عطاء کی ہیں اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔(المائدہ: 88)اس کے برعکس حرام کمائی کو بدبختی اور نحوست کا سبب گردانا گیا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:وہ جسم جو حرام سے پروان چڑھے جہنم ہی اس کے لائق ہے۔(ترمذی)
ہمارے معاشرے میں حرام کمائی کی مختلف صورتیں رائج ہو چکی ہیں: رشوت، سود، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری۔ یہ تمام عوامل نہ صرف مہنگائی کو بڑھا رہے ہیں بلکہ برکت کو بھی ختم کر رہے ہیں۔ جب کسی قوم کے افراد رزقِ حلال کے اصولوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو وہاں بے برکتی، غربت اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔مہنگائی میں اضافے کا ایک بڑا سبب ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری بھی ہے۔ جس وقت کسی چیز کی قلت پیدا کی جاتی ہے اور اسے مہنگے داموں بیچنے کے لیے روک لیا جاتا ہے تو یہ براہِ راست عوام کی پریشانی اور مشکلات کا سبب بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جو شخص غلہ اس نیت سے روک لے کہ قیمت بڑھنے پر فروخت کرے گاتووہ گناہگار ہے۔(مسلم)
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی کمپنیاں اور تاجر اشیاء کو ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں، تاکہ زیادہ قیمت وصول کی جا سکے۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس سے معیشت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اگر تمام مسلمان تاجر اور دکاندار اسلامی احکامات کو اپنائیں تو نہ صرف مہنگائی کم ہو سکتی ہے بلکہ اللہ کی رحمت اور برکت بھی حاصل ہوگی۔
آج کے دور میں سودی نظام بھی مہنگائی اور غربت کا ایک بڑا سبب ہے۔ سود کا تعلق براہِ راست دولت کی غیر مساوی تقسیم سے ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا:اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔(البقرہ۔276)سودی معیشت کی وجہ سے دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسلامی معیشت میں زکوٰة، صدقہ اور قرضِ حسنہ جیسے تصورات ہیں جو دولت کی تقسیم کو متوازن رکھتے ہیں اور معاشرے میں مالی استحکام پیدا کرتے ہیں۔ اگر حکومت اور عوام اسلامی اقتصادی اصولوں کو اپنائیں تو معاشی بحران اور مہنگائی جیسے مسائل میں کمی آ سکتی ہے۔مہنگائی کا ایک اور بڑا سبب اسراف، غیر ضروری اخراجات اور دِکھاوا ہے۔ ہم اسلامی سادگی کے اصول کو ترک کر چکے ہیں اور زندگی کو ایک مقابلہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے:بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔(بنی اسرائیل۔27)
ہمارا طرزِ زندگی قرضوں پر مبنی ہوتا جا رہا ہے۔ ہم فیشن، برانڈڈ چیزوں اور غیر ضروری آسائشات پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی کے لیے بچت کم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم اسلامی سادگی کو اپنائیں تو نہ صرف مہنگائی کے اثرات کم ہو سکتے ہیں بلکہ ذہنی سکون بھی حاصل ہوگا۔
اگر ہم مہنگائی کے خلاف اسلامی اصولوں کے مطابق اقدامات کریں تو یقینا اس کا مثبت اثر پورے معاشرے پر پڑے گا۔ درج ذیل اسلامی اصولوں پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے:مثلاً:ہر شخص کو چاہیے کہ وہ حرام ذرائع سے بچ کر صرف حلال کمائی پر توجہ دے۔ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے اجتناب کرے ،تجارت کے اسلامی اصولوں پر عمل کر کے نفع کمائے، سودی نظام سے نجات پائے ،سادگی اور قناعت کواختیارکرے،غیر ضروری اخراجات کو کم کرے اوریہ کہ اور سادہ طرزِ زندگی اپنائے۔
مہنگائی صرف ایک اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور دینی معاملہ بھی ہے۔ ہمیں صرف حکومت پر تنقید کرنے کے بجائے خود اپنا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، حلال و حرام میں فرق کو سمجھیں اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کریں تو ان شاء اللہ برکت اور خوشحالی کا دور واپس آ سکتا ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے کاروبار، ملازمت اور خرید و فروخت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔ جب تک ہم اسلامی طرزِ معیشت کواختیار نہیں کریں گے، مہنگائی، بے برکتی اور غربت کے عذاب سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رزقِ حلال کمانے اور اسلامی اصولوں پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین